Thursday, April 3, 2025

جو لوگ بعض پر ایمان لا کر اور بعض سے انکار کر کے ایک تیسری راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں

تفسیر القرآن الکریم

 
  

سورة النساء
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا[150]
بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان کوئی راستہ اختیار کریں۔[150]
تفسیر القرآن الکریم 
(آیت 150) ➊ اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ: منافقین کے قبیح اعمال و اقوال بیان کرنے کے بعد اب یہاں سے اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے خیالات و شبہات اور ان کی تردید کا بیان شروع ہو رہا ہے اور یہ سلسلہ سورت کے آخر تک چلا گیا ہے۔ (رازی) اﷲ تعالیٰ کو ماننا اور رسالت و نبوت کو نہ ماننا کفر ہے۔ (قرطبی) اس لیے کہ اﷲ کا ماننا یہی ہے کہ زمانے کے پیغمبرکا حکم مانے، اس کے بغیر اﷲ کا ماننا غلط ہے۔ (موضح) نیز اﷲ کے احکام ماننے سے انکار اس کا بندہ ہونے سے انکار ہے اور بندگی (عبادت) سے انکار کا مطلب کائنات کو بنانے والے کا انکار ہے۔ 

➋ وَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ ……: مراد اہل کتاب ہی ہیں اور بعد والے جملے انھی کی خصلتوں کی تفسیر ہیں۔ (قرطبی، رازی) یہود موسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتے لیکن عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے تھے اور نصاریٰ موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کو مانتے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے۔ (ابن کثیر) 

➌ وَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا: یعنی سب کو ماننا ایمان ہے، کسی ایک کا انکار کفر ہے، جب کہ یہ لوگ بعض پر ایمان لا کر اور بعض سے انکار کر کے ایک تیسری راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں اور اس کا نام یہودیت یا نصرانیت رکھتے ہیں، جیسا کہ ہمارے زمانے کے مادہ پرستوں نے مسجدوں میں نماز، بازاروں میں سود، غم و شادی اور عام رہن سہن میں غیر مسلموں کی نقالی اور عدالتوں اور حکومت کے شعبوں میں کفریہ قوانین، سب کچھ کو ملا کر اس کا نام اسلام رکھ دیا ہے اور بعض نے کہا کہ قرآن کو تو مانیں گے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو نہیں مانیں گے۔ یہ منکرینِ حدیث بھی انھی لوگوں میں شامل ہیں۔

Friday, March 28, 2025

اسلامی کار خیر کو شروع کرنے کا بدلہ اور خلاف شرع کام کا بدلہ ، صحیح مسلم:1017


اجتماعی اور خیر کی ایک نوعیت اور انفرادی اعمال خیر  
اسلامی کار خیر کو شروع کرنے کا بدلہ اور خلاف شرع کام کا بدلہ ، صحیح مسلم:1017 
 
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُون  - سورة الحشر 18 
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ اس سے پور ی طرح باخبر ہے جو تم کر رہے ہو۔[18]

اجتماعی اور خیر کی ایک نوعیت اور انفرادی اعمال خیر ٭٭ 
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم دن چڑھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ کچھ لوگ آئے جو ننگے بدن اور کھلے پیر تھے۔ صرف چادروں یا عباؤں سے بدن چھپائے ہوئے تلواریں گردنوں میں حمائل کئے ہوئے تھے یہ تمام لوگ قبیلہ مضر میں سے تھے، ان کی اس فقرہ فاقہ کی حالت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی رنگت کو متغیر کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں گئے پھر باہر آئے پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کہنے کا حکم دیا اذان ہوئی پھر اقامت ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی پھر خطبہ شروع کیا اور آیت «يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا» ‏‏‏‏  [4-النساء:1] ‏‏‏‏، تلاوت کی پھر سورۃ الحشر کی آیت «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّـهَ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ»  [59-الحشر:18] ‏‏‏‏، پڑھی اور لوگوں کو خیرات دینے کی رغبت دلائی جس پر لوگوں نے صدقہ دینا شروع کیا بہت سے درہم دینار کپڑے لتے کھجوریں وغیرہ آ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر تقریر کئے جاتے تھے یہاں تک کہ فرمایا: اگر آدھی کھجور بھی دے سکتے ہو تو لے آؤ۔ایک انصاری ایک تھیلی نقدی کی بھری ہوئی بہت وزنی جسے بمشکل اٹھا سکتے تھے لے آئے، پھر تو لوگوں نے لگاتار جو کچھ پایا لانا شروع کر دیا یہاں تک کہ ہر چیز کے ڈھیر لگ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اداس چہرہ بہت کھل گیا اور مثل سونے کے چمکنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی کسی اسلامی کار خیر کو شروع کرے اسے اپنا بھی اور اس کے بعد جو بھی اس کام کو کریں سب کا بدلہ ملتا ہے لیکن بعد والوں کے اجر گھٹ کر نہیں، اسی طرح جو اسلام میں کسی برے اور خلاف شرع طریقے کو جاری کرے اس پر اس کا اپنا گناہ بھی ہوتا ہے اور پھر جتنے لوگ اس پر کاربند ہوں سب کو جتنا گناہ ملے گا اتنا ہی اسے بھی ملتا ہے مگر ان کے گناہ گھٹتے نہیں۔‏‏‏‏
  [صحیح مسلم:1017] ‏‏‏‏
آیت میں پہلے حکم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو، یعنی اس کے احکام بجا لا کر اور اس کی نافرمانیوں سے بچ کر، پھر فرمان ہے کہ وقت سے پہلے اپنا حساب آپ لیا کرو دیکھتے رہو کہ قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے پیش ہو گے، تب کام آنے والے نیک اعمال کا کتنا کچھ ذخیرہ تمہارے پاس ہے۔ 
پھر تاکید ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ تمہارے تمام اعمال و احوال سے اللہ تعالیٰ پورا باخبر ہے نہ کوئی چھوٹا کام اس سے پوشیدہ، نہ بڑا نہ چھپا نہ کھلا۔ 
پھر فرمان ہے کہ اللہ کے ذکر کو نہ بھولو ورنہ وہ تمہارے نیک اعمال جو آخرت میں نفع دینے والے ہیں بھلا دے گا۔ اس لیے کہ ہر عمل کا بدلہ اسی کے جنس سے ہوتا ہے اسی لیے فرمایا کہ یہی لوگ فاسق ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے والے اور قیامت کے دن نقصان پہنچانے والے اور ہلاکت میں پڑنے والے یہی لوگ ہیں۔ 
جیسے اور جگہ ارشاد ہے «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ»  [63-المنافقون:9] ‏‏‏‏ یعنی ” مسلمانو! تمہیں تمہارے مال و اولاد یاد اللہ سے غافل نہ کریں جو ایسا کریں وہ سخت زیاں کار ہیں۔“
طبرانی میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک خطبہ کا مختصر سا حصہ یہ منقول ہے کہ آپ نے فرمایا، کیا تم نہیں جانتے؟ کہ صبح شام تم اپنے مقررہ وقت کی طرف بڑھ رہے ہو، پس تمہیں چاہیئے کہ اپنی زندگی کے اوقات اللہ عزوجل کی فرمانبرداری میں گزارو، اور اس مقصد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے کوئی شخص صرف اپنی طاقت و قوت سے حاصل نہیں کر سکتا، جن لوگوں نے اپنی عمر اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے سوا اور کاموں میں کھپائی ان جیسے تم نہ ہونا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان جیسے بننے سے منع فرمایا ہے «وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّـهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ»[59-الحشر:19] ‏‏‏‏ خیال کرو کہ تمہاری جان پہچان کے تمہارے بھائی آج کہاں ہیں؟ انہوں نے اپنے گزشتہ ایام میں جو اعمال کئے تھے ان کا بدلہ لینے یا ان کی سزا پانے کے لیے وہ دربار الٰہیہ میں جا پہنچے، یا تو انہوں نے سعادت اور خوش نصیبی پائی یا نامرادی اور شقاوت حاصل کر لی، کہاں ہیں؟ وہ سرکش لوگ جنہوں نے بارونق شہر بسائے اور ان کے مضبوط قلعے کھڑے کئے، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں، یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے مضبوط قلعے کھڑے کئے، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں، یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے روشنی حاصل کرو جو تمہیں قیامت کے دن کی اندھیروں میں کام آ سکے، اس کی خوبی بیان سے عبرت حاصل کرو اور بن سنور جاؤ، دیکھو اللہ تعالیٰ نے زکریا اور ان کی اہل بیت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا «إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ»  [21-الأنبياء:90] ‏‏‏‏ یعنی ” وہ نیک کاموں میں سبقت کرتے تھے اور بڑے لالچ اور سخت خوف کے ساتھ ہم سے دعائیں کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے جھکے جاتے تھے“، سنو وہ بات بھلائی سے خالی ہے جس سے اللہ کی رضا مندی مقصود نہ ہو، وہ مال خیرو و برکت والا نہیں جو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جاتا ہو، وہ شخص نیک بختی سے دور ہے جس کی جہالت بردباری پر غالب ہو اس طرح وہ شخص بھی نیکی سے خالی ہاتھ ہے جو اللہ کے احکام کی تعمیل میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف کھائے۔ 
اس کی اسناد بہت عمدہ ہیں اور اس کے راوی ثقہ ہیں، گو اس کے ایک راوی نعیم بن نمحہ ثقاہت یا عدم ثقاہت سے معروف نہیں، لیکن امام ابوداؤد سجستانی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ فیصلہ کافی ہے کہ جریر بن عثمان کے تمام استاد ثقہ ہیں اور یہ بھی آپ ہی کے اساتذہ میں سے ہیں اور اس خطبہ کے اور شواہد بھی مروی ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جہنمی اور جنتی اللہ تعالیٰ کے نزدیک یکساں نہیں، جیسے فرمان ہے «أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ»  [45-الجاثية:21] ‏‏‏‏، یعنی ” کیا بدکاروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں باایمان نیک کار لوگوں کے مثل کر دیں گے ان کا جینا اور مرنا یکساں ہے ان کا یہ دعویٰ بالکل غلط اور برا ہے۔ “ 
اور جگہ ہے «وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلَا الْمُسِيءُ»[40-غافر:58] ‏‏‏‏، یعنی ” اندھا اور دیکھتا، ایماندار صالح اور بدکار برابر نہیں، تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کر رہے ہو۔ “ 
اور «أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ» ‏‏‏‏  [38-ص:28] ‏‏‏‏ یعنی ” کیا ہم ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے والوں کو فساد کرنے والوں جیسا بنا دیں گے یا پرہیزگاروں کو مثل فاجروں کے بنا دیں گے؟“ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں، مطلب یہ ہے کہ نیک کار لوگوں کا اکرام ہو گا اور بدکار لوگوں کو رسوا کن عذاب ہو گا۔ 
یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ ” جنتی لوگ فائز بمرام اور مقصدور، کامیاب اور فلاح و نجات یافتہ ہیں اللہ عزوجل کے عذاب سے بال بال بچ جائیں گے۔“

Thursday, March 20, 2025

تقدیر پر ایمان

"قدر"

" یعنی تقدیر سے مراد اللہ تعالیٰ کا اپنے علم اور حکمت کے مطابق ساری کائنات کا ان کے وجود سے پہلے اندازہ اور فیصلہ کرنا ہے۔تقدیر پر ایمان چار امور پر مشتمل ہے:

(1)اس بات پر ایمان کہ اللہ تعالیٰ ازل سے ابد تک ہر چیز سے اجمالا اور تفصیلا واقف ہے،چاہے اس کا تعلق خود اپنے اعمال سے ہو،یا اپنے بندوں کے افعال سے۔
(2)اس بات پر ایمان کہ اللہ تعالیٰ نے سب کچھ لوح محفوظ ،یعنی نوشتہ تقدیر میں لکھ رکھا ہے۔انہی دو امور کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِى ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ ۗ إِنَّ ذَٰلِكَ فِى كِتَٰبٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌۭ ﴿70﴾
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كَتَبَ اللَّهُ مَقَادِيرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ قَالَ وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ.
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَيَخْتَارُ ۗ
وَيَفْعَلُ ٱللَّهُ مَا يَشَآءُ ﴿27﴾
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَٰتَلُوكُمْ ۚ
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ﴿137﴾
ٱللَّهُ خَٰلِقُ كُلِّ شَىْءٍۢ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ وَكِيلٌۭ ﴿62﴾

کیا تجھے معلوم نہیں کہ الله جانتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے یہ سب کتاب میں لکھا ہوا ہے یہ الله پر آسان ہے (سورۃ الحج،آیت 70)


حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیریں آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے ہی لکھ دی تھیں اور اس کا عرش پانی پر ہے ۔"(صحیح مسلم،القدر،باب حجاج آدم و موسی علیھما السلام ،حدیث:2653)

3) اس بات پر ایمان کہ تمام کائنات صرف اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی سے وقوع پزیر ہے،خواہ اس کا تعلق خود باری تعالیٰ کے اپنے عمل سے ہو یا مخلوقات کے افعال و اعمال سے۔اللہ تعالیٰ اپنے عمل کے بارے میں فرماتا ہے:

ترجمہ: اور تیرا رب جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہے پسند کرے (سورۃ القصص،آیت 68)

ایک مقام پر یوں ارشاد ہوا:

الله جوچاہتا ہے کرتا ہے (سورۃ ابراھیم،آیت 27)

ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ

"وہی تو ہے جو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں جس طرح چاہتا ہے ،تمہاری شکل و صورت بناتا ہے۔"(سورۃ آل عمران،آیت 6)

اور مخلوقات کے افعال و اعمال کے متعلق فرماتا ہے:

اگر اللہ چاہتا تو ان کو تم پر غالب کردیتا تو وہ تم سے ضرور لڑتے (سورۃ النساء،آیت 90)

ایک اور جگہ یوں ارشاد ہوا:

اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو ان کو چھوڑ دو ان کو اور جو یہ غلط باتیں بنا رہے ہیں(سورۃ الانعام،آیت 137)

(4)اس بات پر ایمان کہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کردہ ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 الله ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے (سورۃ الزمر،آیت 62)

ایک مقام پر الفاظ یوں ہیں:

وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍۢ فَقَدَّرَهُۥ تَقْدِيرًۭا ﴿2﴾

ترجمہ: اور اس نے ہر چیز کو پیدا کر کے اندازہ پر قائم کر دیا (سورۃ الفرقان،آیت 2)

اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بابت فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا:

وَٱللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ﴿96﴾

ترجمہ: حالانکہ الله ہی نے تمہیں پیدا کیا اور جو تم بناتے ہو (سورۃ الصافات،آیت 96)

قبل ازیں ہم نے "تقدیر پر ایمان" کا جو وصف بیان کیا ہے وہ بندوں کے اختیاری افعال پر ان کو حاصل شدہ قدرت اور مشیت کے منافی نہیں ہے،کیونکہ شریعت اور امر واقع دونوں ہی اس کے لیے اس کے ثبوت پر دلالت کرتی ہیں۔


شریعت سے ثبوت

مشیت،یعنی اپنی مرضی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

فَمَن شَآءَ ٱتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِۦ مَابًا ﴿39﴾

ترجمہ: پس جو شخص چاہے اپنے پروردگار کے پاس ٹھکانہ بنا ئے (سورۃ النباء،آیت 39)

ایک جگہ ارشاد الہی ہے:

فَأْتُوا۟ حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ

ترجمہ: پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ (سورۃ البقرہ،آیت 223)

اور مخلوق کی قدرت کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:

فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ وَٱسْمَعُوا۟ وَأَطِيعُوا۟

: پس جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرو اور (اس کے احکام کو) سنو اور (اس کے) فرمانبردار رہو (سورۃ التغابن،آیت 16)

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا ٱكْتَسَبَتْ ۗ

الله کسی کو اس کی طاقت کے سوا تکلیف نہیں دیتا نیکی کا فائدہ بھی اسی کو ہو گا اور برائی کی زد بھی اسی پر پڑے گی (سورۃ البقرہ،آیت 286)

امر واقع سے ثبوت

ہر انسان جانتا ہے کہ اسے کچھ نہ کچھ قدرت اور اختیار ضرور حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ کسی کام کے کرنے یا چھوڑنے کا مختار ہے اور وہ کسی فعل کے "ارادی" مثلا چلنے اور "غیر ارادی" مثلا کانپنے ،میں فرق کرتا ہے،لیکن کسی بندے کی مشیت اور قدرت ،اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت اور قدرت کے تابع ہوتی ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لِمَن شَآءَ مِنكُمْ أَن يَسْتَقِيمَ ﴿28﴾وَمَا تَشَآءُونَ إِلَّآ أَن يَشَآءَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿29﴾

: (یعنی) اس کے لیے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہی جو اللہ رب العالمین چاہے (سورۃ التکویر،آیت 28-29)

چونکہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے ۔اس لیے اس کے دائرہ ملکیت میں کوئی بھی چیز اس کے علم اور مشیت کے بغیر رونما نہیں ہو سکتی۔

"تقدیر پر ایمان" کی جو تعریف ہم نے بیان کی ہے وہ کسی فرد کے لیے فرائض سے غفلت برتنے یا نافرمانی کے ارتکاب کی اجازت کی دلیل نہیں بن سکتی،چنانچہ اس سے دلیل پکڑنا کئی اعتبار سے باطل ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

سَيَقُولُ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُوا۟ لَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَآ أَشْرَكْنَا وَلَآ ءَابَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَىْءٍۢ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ حَتَّىٰ ذَاقُوا۟ بَأْسَنَا ۗ قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍۢ فَتُخْرِجُوهُ لَنَآ ۖ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ ﴿148﴾

ترجمہ: جو لوگ شرک کرتے ہیں وہ کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا (شرک کرتے) اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے اسی طرح ان لوگوں نے تکذیب کی تھی جو ان سے پہلے تھے یہاں تک کہ ہمارے عذاب کا مزہ چکھ کر رہے کہہ دو کیا تمہارے پاس کوئی سند ہے (اگر ہے) تو اسے ہمارے سامنے نکالو تم محض خیال کے پیچھے چلتے اور اٹکل کی تیر چلاتے ہو (سورۃ الانعام،آیت 148)

اگر "نوشتہ تقدیر" ان کے لیے حجت بن سکتا تو اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ کفار اور مشرکین کو اپنے عذاب کا مزہ نہ چکھاتا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

رُّسُلًۭا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى ٱللَّهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ ٱلرُّسُلِ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًۭا﴿165﴾

ترجمہ: (سب) پیغمبروں کو (اللہ نے) خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے (بنا کر بھیجا تھا) تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کو اللہ پر الزام کا موقع نہ رہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے (سورۃ النساء،آیت 165)

اسی طرح اگر مخالفین کے لیے "نوشتہ تقدیر" دلیل بن سکتا تو رسولوں کو بھیج کر ان کی "حجت" کو باطل نہ ٹھہرایا جاتا کیونکہ پیغمبروں کو بھیجنے کے بعد اگر کوئی مخالفت ہوتی ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردی تقدیر ہی سے واقع ہوتی ہے۔

امام بخاری اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیھم حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

(ما منكم من أحد إلا قد كتب مقعده من النار أو من الجنة). فقال رجل من القوم: ألا نتكل يا رسول الله؟ قال: (لا، اعملوا فكل ميسَّر. ثم قرأ: {فأما من أعطى واتقى}. الآية)

"تم میں سے ہر شخص کا ٹھکانہ اللہ نے جنت یا جہنم میں لکھ دیا ہے ۔یہ سن کر جماعت صحابہ میں سے ایک شخص نے سوال کیا: یا رسول اللہ ! کیا ہم اسی پر بھروسہ نہ کر لیں۔آپ (ﷺ) نے فرمایا : نہیں،عمل کرو کیونکہ ہر ایک کے لیے وہ کام آسان بنا دیا گیا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ،پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: (فأما من أعطى واتقى)(ترجمہ: تو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرتا رہا۔۔۔۔الایۃ"(صحیح بخاری ،القدر،باب وکان امر اللہ قدر ا مقدورا،حدیث :6605)

متذکرہ بالا الفاظ صحیح بخاری کے ہیں ،اور صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں:

فکل میسر لما خلق لہ

"ہر ایک کے لیے وہ کام آسان بنا دیا گیا ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔"(صحیح مسلم ،القدر ،باب کیفیۃ خلق الآدمی،فی بطن امہ۔۔۔۔۔،حدیث :2647)

پس معلوم ہوا کہ نبی ﷺ نے عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور عمل کو چھوڑ کر صرف تقدیر ہی پر بھروسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔

بے شک اللہ تعالیٰ نے بندے کو اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے لیکن اس کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کسی چیز کا "مکلف" نہیں ٹھہرایا ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ

ترجمہ: پس جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرو (سورۃ التغابن،آیت 16)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ

ترجمہ: الله کسی کو اس کی طاقت کے سوا تکلیف نہیں دیتا (سورۃ البقرہ،آیت 286)

اگر بندہ کسی فعل کی انجام دہی پر مجبور ہوتا تو وہ ہر اس فعل کو انجام دینے پر بھی مجبور ہو جاتا جس سے چھٹکارا پانے کی اس میں استطاعت ہے۔لیکن یہ چیز باطل ہے،لہذا اگر کسی سے جہالت،نسیان (بھول) اور اکراہ (زبردستی) کے سبب کوئی مصیبت کا کام سر زد ہوجائے تو اس پر کوئی گناہ نہ ہو گا،کیونکہ وہ معذور ہے۔

اللہ تعالیٰ نے "نوشتہ تقدیر" کو انتہائی پوشیدہ اور صیغہ راز میں رکھا ہے،چنانچہ جس چیز کا پہلے سےاندازہ ٹھہرایا جا چکا ہے،اس کے رونما ہونے والے بعد ہی اس کا علم ہوتا ہے۔لیکن جب بنہ کوئی کام کرتا ہے تو وہ پہلے سے جانتا ہے کہ وہ کس کام کا ارادہ رکھتا ہے،پس اس کے فعل کا ارادہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں اس کے علم پر مبنی نہیں ہوتا۔یہ چیز نافرمانی کے کاموں پر تقدیر سے استدلال کی نفی کرتی ہے،کیونکہ جس چیز کا علم ہی نہ ہو وہ کسی امر کے لیے دلیل کیسے بن سکتی ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ انسان دنیاوی معاملات میں ہر پسند اور نفع بخش چیز کا حریص ہوتا ہے ،اور جب تک اسے پا نہ لے اس کا متمنی و متلاشی رہتا ہے ۔جبکہ نا پسندیدہ اور غیر نفع بخش چیزوں کی طرف ہر گز توجہ نہیں دیتا،اور اپنی اس توجہ پر "تقدیر" سے دلیل پکڑتا ہے تو امور دین میں اس کے لیے جو چیزیں نفع بخش ہو سکتی ہیں ان کو چھوڑ کر تکلیف دہ چیزوں کی طرف اس کا پلٹنا اور پھر اس پر "نوشتہ تقدیر" سے استدلال کرنا کیوں کر درست ہو سکتا ہے؟کیا ان دونوں (دینی اور دنیاوی ) امور کا معاملہ یکساں نہیں ہے؟

اس چیز کی مزید وضاحت کے لیے ہم یہاں دو مثالیں پیش کرتے ہیں:

(1)اگر ایک انسان کے سامنے دو راستے ہوں ۔ایک راستہ کسی ایسے شہر کی طرف بکلتا ہو جہاں بد نظمی ،قتل و غارت ،لوٹ مار،عصمت دری،خوف و ہراس اور بھوک کا راج ہو،اور دوسرا راستہ کسی ایسے شہر کی طرف جا کر ختم ہوتا ہو جہاں ہر طرف امن و امان،خوش انتظامی ،عیش و آرام ،آسودہ حالی،احترام آدمیت،عزت و آبرو اور جان و مال محفوظ ہو،تو وہ کون سا راستہ اختیار کرے گا؟

ظاہر ہے کہ وہ دوسرا راستہ ہی اختیار کرے گا جو ایک ایسے منظم فلاحی شہر پر جا کر ختم ہوتا ہے جہاں چاروں طرف امن و امان ہے۔جب کوئی عقل مند آدمی "نوشتہ تقدیر"کو حجت بنا کر بد نظمی،خوف و ہراس اور لوٹ مار والے شہر کی راہ نہیں لہتا تو جو شخص جنت کا راستہ چھوڑ کر جہنم کا راستہ اختیار کرے وہ "نوشتہ تقدیر" کا سہارا کس طرح لے سکتا ہے؟

(2)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ڈاکٹر کسی مریض کو دوا پینے کی تاکید کرتا ہے تو وہ اسے نہ چاہنے کے با وجود پی لیتا ہے،اسی طرح جب وہ کسی غذا کے کھانے سے منع کرتا ہے تو مریض رغبت کے باوجود وہ غذا چھوڑ دیتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ مریض اپنی سلامتی اور شفا ہی کےلیے کرتا ہے ،"نوتشہ تقدیر" کو دلیل بنا کر ایسا ہرگز نہیں کرتا کہ نا پسندیدہ دوا پینے سے انکار کرے اور وہ ممنوعہ غذائیں کھاتا رہے جو اس کے لیے مضر ہیں۔پس یہ کیسے درست ہو سکتا ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو چھوڑ کر وہ چیزیں اپنائے جن سے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) نے منع فرمایا ہے ،اور پھر اس پر "نوشتہ تقدیر" سے دلیلیں لیتا پھرے۔

"نوشتہ تقدیر" کو دلیل بنا کر واجبات کو چھوڑنے ،یا معصیت کے کام کرنے والے شخص پر اگر کوئی شخص ظلم و زیادتی کرے ،اس کا مال و اسباب چھین لے،یا اس کی عزت پامال کرے،اور پھر "تقدیر" سے دلیل پکڑتے ہوئے یہ کہے کہ مجھے ملامت مت کرو کیونکہ میرا ظلم و زیادتی تو محض اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہے ،تو وہ یہ دلیل ہرگز قبل نہیں کرے گا۔پس جب وہ "تقدیر" کی دلیل کو اپنے اوپر کیے جانے والے کسی دوسرے شخص کے ظلم و ستم کے لیے قبول نہیں کرتا،تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق و فرائض میں اپنی کوتاہی پر اسے کس طرح دلیل بناتا ہے؟

اس سلسلے میں لگے ہاتھوں ایک واقعہ سن لیجیے۔امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک طور کا مقدمہ پیش ہوا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے ہاتھ قلم کرنے کا حکم جاری فرمایا۔اس نے عرض کی "اے امیر المومنین!نرمی کیجیےکیونکہ میں نے یہ چوری صرف اللہ تعالیٰ کی "قضا و قدر" سے کی تھی ۔یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "ہم بھی تو تیرا ہاتھ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی قضا و قدر سے کاٹ رہے ہیں۔"


Monday, March 17, 2025

زکاۃ ادا کرنے سے باقی مال پاک ہو جاتا ہے

زکاۃ ادا کرنے سے باقی مال پاک ہو جاتا ہے ورنہ سارا مال ناپاک ہوتا ہے
حدیث نمبر: 1791

(مرفوع) حدثنا بكر بن خلف ، ومحمد بن يحيى ، قالا: حدثنا عبيد الله بن موسى ، انبانا إبراهيم بن إسماعيل ، عن عبد الله بن واقد ، عن ابن عمر ، وعائشة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" كان ياخذ من كل عشرين دينارا فصاعدا نصف دينار، ومن الاربعين دينارا دينارا".
عبداللہ بن عمر اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ہر بیس دینار یا اس سے زیادہ میں آدھا دینار لیتے تھے، اور چالیس دینار میں ایک دینار کے حساب سے لیتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7291، 16289، ومصباح الزجاجة: 64) (صحیح)» ‏‏‏‏ (ابراہیم بن اسماعیل ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 813)

قال الشيخ الألباني: صحيح
مسائل: 
(1) 
اللہ کی راہ میں خرچ کرنا دین کے اہم مسائل میں سے ہے یہ حکم زکاۃ فرض ہونے سے پہلے بھی تھا اب بھی ہے لیکن پہلے اس کی کم از کم مقدار کا تعین نہیں کیا گیا تھا، اس کے بعد یہ مقدار بھی متعین کر دی گئی۔ 

(2) 
فرض زکاۃ اور دیگر واجب اخراجات کے علاوہ نیکی کی راہ میں خرچ کرنا نفلی عبادت ہے۔ 

(3) 
زکاۃ ادا کرنے سے باقی مال پاک ہو جاتا ہے ورنہ سارا مال ناپاک ہوتا ہے۔ 

(4) 
جائز طریقے سے دولت مند ہونا اللہ کی طرف سے احسان اور نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنے کے لیے ضرورت مند افراد کی مدد کرتے رہنا چاہیے۔
فوائد و مسائل: 
(1) 
جو گھوڑے کام کاج کے لیے ہوں اور جو غلام خدمت کے لیے ہوں، ان کی زکاۃ دینا فرض نہیں لیکن اگر کوئی شخص گھوڑوں یا غلاموں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتا ہو تو اسے دوسرے مال تجارت کی طرح ان کی قیمت کا اندازہ کر کے ان کی زکاۃ ادا کرنی چاہیے اس کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں لیکن ان کی سندوں میں کلام ہے تاہم کہا جاسکتا ہے کہ یہ احادیث باہم مل کر قابل استدلال ہو سکتی ہیں۔ 
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے بھی تاجروں سے مال تجارت پر زکاۃ وصول کرنے کے احکامات جاری فرمائے تھے۔ (موطأ إمام مالك، باب زکاۃ العروض: 1؍235) 
اس کی سند حسن ہے۔ 
امام بیہقی رحمة الله عليه نے مال تجارت پر زکاۃ کے وجوب کو ترجیح دیتے ہوئے فرمایا ہے: 
(وهذا قول عامة اهل العلم) (سنن البیہقی: 4؍147) 
اکثر علماء کا یہی قول ہے۔ 

(2) 
درہم چاندی کا سکہ تھا جس کا وزن موجودہ حساب سے 2.975 گرام اور بعض کے نزدیک 3.06 گرام ہے۔ 
کم از کم دو سو درہم چاندی ہو تو زکاۃ واجب ہوتی ہے۔ 
ارشاد نبوی ہے: 
پانچ اوقیہ سے کم میں زکاۃ نہیں۔ (صحیح البخاري، الزکاة، باب زکاة الورق، حدیث: 1447) 
اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ (جامع الترمذي، الزکاة، باب ما جاء فی صدقة الزرع والثمر والحبوب، حدیث: 627) 
اکثر علماء نے دو سو درہم کی مقدار ساڑھے باون تولے بیان کی ہے۔ 

(3) 
سونے کا نصاب بیس دینار ہے جس کی مقدار ساڑھے سات تولے ہوتی ہے۔ 
جب کہ موجودہ دور کے حساب سے اس کا وزن 85 گرام بنتا ہے۔ 

(4) 
سونے اور چاندی میں زکاۃ کی مقدار چالیسواں حصہ ہے، مثلا: 
اگر کسی کے پاس دس تولے سونا ہو تو اسے چوتھائی تولہ(تین ماشے یعنی 2.916 گرام) 
سونے کے برابر زکاۃ ادا کرنا فرض ہوگی۔ 

(5) 
نقد رقم کا نصاب سونے کے برابر ہے کیونکہ موجودہ نظام کے مطابق کرنسی نوٹ سونے کے قائم مقام قرار دیے جاتے ہیں، اس لیے بین الاقوامی تجارت میں ممالک ایک دوسرے سے سونا وصول اور ادا کرتے ہیں تاہم علماء کی اکثریت نے نقد رقم کی زکاۃ کے لیے چاندی کے نصاب کو بنیاد بنایا ہے، یعنی کم از کم ساڑھے باون تولے چاندی کی رقم کے برابر جس کے پاس رقم فالتو پڑی ہو اور اس پر سال گزر جائے تو وہ اس میں سے ڈھائی فی صد کے حساب سے زکاۃ ادا کرے۔ 
اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ اس نصاب میں غرباء و مساکین کا زیادہ فائدہ ہے کیونکہ اس طرح اہل نصاب زیادہ ہوں گے اور زیادہ زکاۃ نکلے گی۔ 
واللہ اعلم بالصواب۔

Sunday, March 16, 2025

افطار کی مسنون دعا

افطار کی مسنون دعا 

ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله 
پیاس جاتی رہی،اور رگیں تر ہوگئيں، اوران شاء الله اجر ثابت ہوگيا ۔

عبدالله آبن عمر رضي الله تعالی فرماتے ہيں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم جب افطار کرتے تو مندرجہ ذيل دعا پڑھا کرتے تھے :

( ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله )

پیاس جاتی رہی ، اوررگیں تر ہوگئيں ، اوران شاء الله اجر ثابت ہوگيا ۔

سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2357 ) سنن الدار قطنی حدیث نمبر ( 25 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے التلخيص الحبیر ( 2 / 202 ) میں کہا ہے کہ دارقطنی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔

لیکن وہ دعا جو اس وقت لوگوں میں عام ہے اورافطاری کے وقت مندرجہ ذيل دعا پڑھی جاتی ہے وہ صحیح نہیں وہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے :

( اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت

اے اللہ میں نے تیرے لیے ہی روزہ رکھا اورتیرے رزق پر ہی افطار کیا ۔ 

سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2358 )

علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ضعیف سنن ابو داود ( 510 ) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔

لھذا اس دعا کے بدلے میں دوسری دعا جواس سے پہلے بیان کی گئی ہے وہ پڑھنی چاہیے کیونکہ وہ صحیح ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی ہے ۔

اورعبادات بجالانے کےبعد دعا کرنا شریعت اسلامیہ میں اصل چيز ہے مثلا فرض نمازوں کےبعد دعا کرنا ، اوراسی طرح مناسک حج وعمرہ ادا کرنے کے بعد دعا اسی طرح روزہ بھی ان شاء اللہ دعا سے باہر نہیں رہتا ، بلکہ اللہ تعالی نے روزں کا ذکر کرتےہوئے درمیان میں ہی دعا کا ذکر کرتے ہوئے کچھ اس طرح فرمایا ہے :

{ جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے میں اس کی پکار قبول کرتا ہوں ، اس لیے لوگوں کو بھی چاہۓ کہ وہ میری بات مان لیا کریں ، اورمجھ پر ایمان رکھیں ، یہی ان کی بھلائي کا باعث ہے } البقرۃ ( 186 ) ۔

اس آیت میں اس ماہ مبارک میں دعا کرنے کی اہمیت واضح ہورہی ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتےہیں :

اللہ سبحانہ وتعالی نے اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے قریب ہے اوردعا کرنے والے کی دعا کوسنتا ہے وہ جب بھی پکارے اللہ تعالی اسے قبول کرتا ہے ، اس میں اللہ تعالی اپنے بندوں کو ربوبیت کی خبردے رہا ہے اورانہيں اس کا سوال اوران کی دعا کی قبولیت کا شرف بخش رہا ہے کیونکہ جب بندے اپنے رب سے دعا کرتے ہيں تو وہ اس کی ربوبیت پر ایمان لا کرایسا کرتے ہیں ۔۔۔ 

اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالی نے یہ فرمایا کہ :

{ اس لیے انہیں بھی چاہۓ کہ وہ بھی میری بات تسلیم کریں اورمجھ پر ایمان لائيں تا کہ وہ راہ راست پر آجائيں }
البقرۃ ( 186 ) ۔

توپہلی بات یہ ہے کہ : اللہ تعالی نے عبادت واستعانت میں جس چيز کا حکم دیا ہے وہ اس میں اس کی اطاعت کرتے ہوئے اس کی بات تسلیم کریں ۔

دوسری بات یہ ہے کہ : اللہ تعالی کی ربوبیت اوراس کی الوھیت پر ایمان ، اوریہ ایمان رکھنا کہ وہ ان کا رب ہے الہ ہے ، اوراسی لیے کہا جاتا ہے کہ : دعا اس وقت قبول ہوتی ہے جب اعتقاد صحیح ہو اوراطاعت بھی مکمل پائي جاتی ہو ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے دعا کی آيت کے آخر میں اسے اپنے اس فرمان میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے :

{ لھذا انہيں چاہۓ کہ وہ میری بات تسلیم کریں اورمجھ پر ایمان لائيں } دیکھیں مجموع الفتاوی ( 14 / 33 ) ۔

واللہ اعلم .

Saturday, March 15, 2025

”تم اللہ سے ڈرو جہاں کہیں بھی ہو

سنن دارمي  حدیث نمبر:2826

حدثنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن حبيب بن ابي ثابت، عن ميمون بن ابي شبيب، عن ابي ذر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اتق الله حيثما كنت، واتبع السيئة الحسنة تمحها، وخالق الناس بخلق حسن".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تم اللہ سے ڈرو جہاں کہیں بھی ہو، اور برائی سرزد ہونے کے بعد نیکی کرو جو برائی کو مٹا دے گی، اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے ملو۔

وضاحت: 
(تشریح حدیث 2825) 
اس حدیث میں تقویٰ کی تعلیم ہے اور برائی کے سرزد ہونے کے بعد بطورِ کفاره نیکی کرنے کا حکم اور حسنِ اخلاق کی تعلیم ہے۔ 

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات لكن ابن أبي حاتم، [مكتبه الشامله نمبر: 2833]»  
اس حدیث کے رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے: [ترمذي 1988، وقال: حسن صحيح]، [أحمد 153/5]، [طبراني 145/20، 395]، [القضاعي 652]، [شعب الايمان 8026]