؟ کیا وہ انہیں داخل جنت کرے گا یا داخل جہنم ؟
یہ وہ سوال ہے جو ہم میں سے اکثر لوگ کرتے ہیں اور (اپنی ”اوقات“ دیکھے بغیر) محض اپنی ”خواہشات“ کے مطابق خود ہی اس کا جواب بھی دینے لگتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اللہ کا ”ذاتی فعل“ ہے کہ وہ اپنے کس بندے کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ ہم کون ہیں اس بات کا ”فیصلہ“ کرنے والے کہ اللہ کس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟
اس سوال کا ایک جواب یہ کہ اللہ انہیں جنت میں داخل کرے گا کیونکہ اللہ ستر ماؤں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، وہ عادل ہے ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ جوابات عموماً ایسے لوگوں کی طرف سے آتا ہے، جن کے غیر مسلموں کے ساتھ ”اچھے تعلقات“ ہوتے ہیں۔ اُن کی زندگی کا بہت سا وقت ”غیر مسلموں“ کے ساتھ گزرتا ہے۔ اور ان کے بہت سے دنیوی ”مفادات“ انہی ”اچھے غیر مسلموں“ کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔
اس سوال کا دوسرا جواب ”اسلام کے ٹھیکیداروں“ کی طرف سے دیا جاتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ نہیں نہیں ۔ اللہ نے جنت تو مسلمانوں کے لئے بنائی ہے۔ جنت میں صرف اور صرف ہم مسلمان ہی جائیں گے اور تمام غیر مسلم داخل جہنم ہوں گے۔ وغیرہ وغیرہ
چند اور ”گروپ“ کے اس قسم کے ”دعوے“ اور ان یہ طرز عمل اللہ تعالیٰ کے ”ذاتی معاملات“ میں مداخلت کے مترادف ہے۔ ہمیں تو صرف اور صرف ”اپنی فکر“ ہونی چاہئے کہ اللہ ہمارے ساتھ آخرت میں کیا سلوک کرے گا۔ کیا ہمارا ایمان، ہماری عبادات، ہمارے معاملات، ہمارا حق کی تلقین کرنا اور ہمارا صبر کرنا، اس درجہ تک پہنچا ہوا ہے کہ ہم اُن لوگوں کی صف مین شامل ہونے سے بچ جائیں گے، جن کے بارے مین اللہ نے فرمایا ہے کہ بے شک انسان سراسر خسارے میں ہے ۔ ۔ ۔ (سورۃ العصر)
اور اگر ہم اپنی ذات کے بارے میں ”مطمئن“ ہوجائیں اور اپنی ذات سے آگے کی کائنات کے بارے میں ”تجزیہ نگاری“ کرنا چاہیں کہ اچھے اور نیک غیر مسلمین جنت میں جائیں گے یا جہنم میں تو اس بارے مین اپنے اپنے خواہشات کو ایک طرف رکھ کر قرآن اور صحیح احادیث سے اس بات کا جواب تلاش کریں کہ خود اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ گو کہ قرآن اور حدیث کی موجودگی میں كسی کی ذاتی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ ہماری اپنی ذاتی خیالات کے اظہار پر اللہ تعالیٰ اس بارے میں میری اور آپ کی ”گرفت“ کرلے کہ کہ تم کون ہوتے تھے، میرے فیصلہ کے بارے میں فیصلہ کرنے والے جب کے جاہ بجا قرآن میں احکام وارد ہیں
ان دونوں ”گروپ“ کے اس قسم کے ”دعوے“ اور ان کا یہ طرز عمل اللہ تعالیٰ کے ”ذاتی معاملات“ میں مداخلت کے مترادف ہے ( جواب قرآن کریم سے)۔
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ اللّهَ لَا يَغفِرُ اَن يُّشرَكَ بِه وَيَغفِرُ مَا دُونَ ذلِكَ لِمَن يَّشَآءُ ۚ وَمَن يُّشرِك بِاللّهِ فَقَدِ افتَـرۤى اِثمًا عَظِيمًا
ترجمہ:اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا،79 اِس کے ماسوا دُوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔80 اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھیرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جُھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی
:سورة النِّسَآء 79
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ اللّهَ لَا يَغفِرُ اَن يُّشرَكَ بِه وَيَغفِرُ مَا دُونَ ذلِكَ لِمَن يَّشَآءُ ؕ وَمَن يُّشرِك بِاللّهِ فَقَد ضَلَّ ضَللًاۢ بَعِيدًا
اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتاہے جسے وہ معاف کر نا چاہے۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا
:سورة النِّسَآء 144
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ
(سورۃ البینۃ )
ترجمہ :
اہل کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ یقینا دوزخ کی آگ میں ہوں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہی لوگ بدترین خلائق ہیں‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ (2) عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ (3) تَصْلَى نَارًا حَامِيَةً (4
سورۃ الغاشیہ
عاس (حشر کے ) دن کتنے ہی چہرے خوف زدہ ہوں گے، سخت محنت(والے عمل ) کرنے والے، تھکے ماندے ہوں گے،لیکن دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کافر کوئی نیکی کا کام کرتا ہے، جس پر اسے ثواب ملنا چاہئے؛ تو اسے دنیا ہی میں اسکا بدلہ دے دیا جاتا ہے، جبکہ آخرت میں اسکے لئے کچھ نہیں ہے، اس لئے کہ کفر کی وجہ سے اسکے اعمال آخرت میں کوئی فائدہ نہیں دے گے، کیونکہ عمل کی قبولیت کیلئے اسلام شرط ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ۔۔اسلام سوال و جواب۔۔سائٹ پر اس سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
قال الطبري – رحمه الله - :
مَن عمل عملا صالحًا في غير تقوى - يعني : من أهل الشرك - أُعطي على ذلك أجراً في الدنيا : يصل رحمًا ، يعطي سائلا يرحم مضطرًّا ، في نحو هذا من أعمال البرّ ، يعجل الله له ثواب عمله في الدنيا ، ويُوسِّع عليه في المعيشة والرزق ، ويقرُّ عينه فيما خَوَّله ، ويدفع عنه من مكاره الدنيا ، في نحو هذا ، وليس له في الآخرة من نصيب . " تفسير الطبري " ( 15 / 265 ) .
محمد بن جریرطبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر اہل شرک میں سے کوئی شخص نیکی کرے تو اسے دنیا ہی میں اجر دے دیا جاتا ہے، مثلاً : صلہ رحمی کرے، سوالی کو دے ، یا کسی لاچار پر ترس کھائے، یا اسی طرح کے دیگر رفاہی کام کرے، اللہ تعالی اسکے عمل کا ثواب دنیا ہی میں دے دیتا ہے، اور اس عمل کے بدلے میں معیشت، اور رزق میں فراخی ڈال دیتا ہے، اسکی آنکھوں کو نم نہیں ہونے دیتا، اور دنیاوی تکالیف دور کردیتا ہے،وغیرہ وغیرہ، جبکہ آخرت میں اسکے لئے کچھ نہیں ہے"
" تفسير طبری " ( 15 / 265 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقال الحافظ ابن حجر – رحمه الله - :
وقال القاضي عياض : انعقد الإجماع على أن الكفار لا تنفعهم أعمالهم ، ولا يثابون عليها بنعيم ، ولا تخفيف عذاب ، وإن كان بعضهم أشد عذاباً من بعض .
" الفتح " ( 9 / 48 ) .
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ : "اس بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ کفار کو انکے اعمال فائدہ نہیں دینگے، اور نہ ہی ان اعمال پر انہیں کسی قسم کا ثواب ملے گا، اور نہ ہی انکی وجہ سے عذاب میں کمی کی جائےگی، اگرچہ کچھ کفار کو دیگر کفار کی بہ نسبت کم یا زیادہ عذاب ملے گا"
" فتح الباری " ( 9 / 48 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واعلم أن الله تعالى لا يضيع عليهم أجور أعمالهم النافعة للناس ، لكنَّ ثوابها يكون في دنياهم لا في أخراهم ، وأما المؤمن فإن ثواب أعماله الخيِّرة يكون في الدنيا والآخرة .
یہ بات بھی ذہن نشین رہےکہ اللہ تعالی انکے کسی بھی رفاہی کام کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا، بلکہ انہیں اسی دنیا میں اسکا بدلہ دے دیگا، لیکن آخرت میں کچھ ملنے والا نہیں، جبکہ مؤمن کے اعمال کا ثواب اسے دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں ملے گا۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( إِنَّ الْكَافِرَ إِذَا عَمِلَ حَسَنَةً أُطْعِمَ بِهَا طُعْمَةً مِنْ الدُّنْيَا ، وَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَإِنَّ اللَّهَ يَدَّخِرُ لَهُ حَسَنَاتِهِ فِي الْآخِرَةِ ، وَيُعْقِبُهُ رِزْقًا فِي الدُّنْيَا عَلَى طَاعَتِهِ ) . رواه مسلم ( 2808 ) .
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیشک جب کافر کوئی بھی نیکی کا عمل کرتے تو اسے دنیا کی نعمتیں عطا کردی جاتی ہیں، جبکہ مؤمن کیلئے اسکی نیکیاں آخرت کیلئے بھی ذخیرہ کی جاتی ہیں، اور دنیا میں اطاعت گزاری کی وجہ سے اسے رزق بھی عنائت کیا جاتاہے) مسلم ( 2808 )
اوردوسری روایت میں ہے :
( إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مُؤْمِنًا حَسَنَةً ، يُعْطَى بِهَا فِي الدُّنْيَا ، وَيُجْزَى بِهَا فِي الْآخِرَةِ ، وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُطْعَمُ بِحَسَنَاتِ مَا عَمِلَ بِهَا لِلَّهِ فِي الدُّنْيَا ، حَتَّى إِذَا أَفْضَى إِلَى الْآخِرَةِ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَةٌ يُجْزَى بِهَا ) .
(اللہ تعالی کسی مؤمن کی ایک نیکی کوبھی کم نہیں کریگا اور اسکے بدلے میں دنیا میں بھی دیگا اور آخرت میں اسکی جزا عنائت کریگا، جبکہ کافر کو دنیا ہی میں اسکی نیکیوں کے بدلے کھلا پلا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ جب آخرت میں پہنچے گا تو اسکے لئے کوئی نیکی باقی نہیں ہوگی جس پر اسے جزا بھی دی جائے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واعلم أن هذا الجزاء في الدنيا ليس مقطوعاً به ، بل هو إلى مشيئة الله تعالى ، قال عزَّ وجل ( مَّن كَانَ يُرِيدُ العاجلة عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَآءُ لِمَن نُّرِيدُ )
(الإسراء/ 18 )
یہ بھی بات یاد رہے کہ دنیا میں جزا ملنا قطعی فیصلہ نہیں ہے، بلکہ وہ بھی اللہ کی مشیئت پر منحصرہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( مَّن كَانَ يُرِيدُ العاجلة عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَآءُ لِمَن نُّرِيدُ ) الإسراء/ 18
ترجمہ: جو شخص دنیا چاہتا ہے تو ہم جس شخص کو اور جتنا چاہیں دنیا میں ہی دے دیتے ہیں ۔
قال الشنقيطي - رحمه الله - :
واعلم أن هذا الذي ذكرنا أدلته من الكتاب والسنة من أن الكافر ينتفع بعمله الصالح في الدنيا : كبر الوالدين ، وصلة الرحم ، وإكرام الضيف والجار ، والتنفيس عن المكروب ونحو ذلك : كله مقيد بمشيئة الله تعالى ، كما نص على ذلك بقوله : ( مَّن كَانَ يُرِيدُ العاجلة عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَآءُ لِمَن نُّرِيدُ ) الإسراء/18 الآية .
فهذه الآية الكريمة مقيدة لما ورد من الآيات والأحاديث ، وقد تقرر في الأصول أن المقيد يقضي على المطلق ، ولا سيما إذا اتحد الحكم والسبب كما هنا .
" أضواء البيان " ( 3 / 450 ) .
نامور مفسر قرآن جناب محمد الأمين بن محمد المختار الشنقيطي (المتوفى : 1393هـ)رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہم نے جس مسئلے کیلئے دلائل قرآن وسنت کی روشنی میں دئیے ہیں کہ کافر کو صلہ رحمی، مہمان نوازی، پڑوسی کا خیال، مصیبت زدہ لوگوں کی مدد وغیرہ جیسے نیک اعمال کا صلہ دنیا ہی میں مل جاتا ہے، یہ تمام کا تمام اللہ کی مشیئت پر منحصر ہےاور اللہ تعالی نے یہ صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں فرمایا ہے: ( مَّن كَانَ يُرِيدُ العاجلة عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَآءُ لِمَن نُّرِيدُ ) الإسراء/18
چنانچہ یہ آیت کریمہ دیگر آیات و احادیث کیلئے مقیدہ ہے، اور اصول یہ ہے کہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے، خاص طور پر جب حکم اور سبب دونوں ایک ہوں، جیسے یہاں پر ہے"
" تفسیر أضواء البيان " ( 3 / 450 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وما ذكرناه عن إثابة الله تعالى لمن شاء من الكفار لا ينطبق على " تريزا " - واسمها الأصلي آغنيس غونكزا بوجاكسيو ، وأصلها من " مقدونيا " ، وقد توفيت سنة 1997 م – وذلك أنها كانت " راهبة منصِّرة " تستثمر عملها في إعانة الفقراء والمشردين والمرضى في تنصيرهم وإدخالهم في دينها ، ومثل هذه لا يسمَّى عملها " حسنة " ، وما تطعمه في الدنيا فليس هو جزاء أعمالها ، بل هو ما تكفل الله به ، وسيعاقب عليه من كان به كافراً كما قال تعالى : ( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هََذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ) البقرة/ 126 .
اور جو ہم نے ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالی کفار میں سے جسے چاہے اس دنیا میں اسکا بدلہ دے دیتا ہے "ٹریسا" کو یہ بھی نہیں ملے گا - اس کا اصلی نام آگنیس گونکسا بوجاکسیو (Agnes Gonxha Bojaxhiu)ہے، مقدونیا سے تعلق رکھتی ہے، اور 1997ء میں فوت ہوئی- اس لئے کہ یہ عیسائی راہبہ تھی، اور فقراء ، جلاوطن، اور بیماروں کی مدد کو عیسائی بنانے کیلئے بطور ہتھیار استعمال کرتی تھی، اور انہیں اپنے مذہب میں داخل کرتی تھی، اور اس قسم کے کام کو "نیکی"تصور نہیں کیا جاسکتا، اور جو کچھ اسے اس دنیا میں کھانے پینے کیلئے ملا وہ اسکے اعمال کا بدلہ نہیں تھا، بلکہ وہ سب کچھ اللہ کی طرف سے بطور کفالت تھا، جیسے اللہ تعالی نے فرمایا:
( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هََذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ) البقرة/ 126
ترجمہ: اور جب ابراہیم نے یہ دعا کی کہ : ''اے میرے پروردگار! اس جگہ کو امن کا شہر بنا دے۔ اور اس کے رہنے والوں میں سے جو کوئی اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائیں انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما۔'' اللہ تعالیٰ نے جواب دیا : ''اور جو کوئی کفر کرے گا تو اس چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اسےبھی دوں گا مگر آخرت میں اسے دوزخ کے عذاب کی طرف دھکیل دوں گا اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے''
فتحصل أن أعمال الكفار في الدنيا على قسمين :
الأول : ما كان من أعمال الدنيا من أعمال البِرّ ، ولا يشترط فيه نية التقرب ، كصلة الرحم وإكرام الضيف وما يشبهه ، فهذا هو المقصود في الحديث والذي من أجله يثاب الكافر عليه في الدنيا إن شاء الله له المثوبة .
حاصل کلام یہ ہوا کہ کفار کے اعمال دنیا کے اعتبار سے دو اقسام کے ہیں:
پہلی قسم: دنیا میں جتنے بھی نیکی کے کام کئے، وہ انہیں بطورِ عبادت نہیں کرتا، جیسے ، صلہ رحمی، مہمان نوازی وغیرہ، تو یہی اعمال حدیث میں مراد ہیں کہ اللہ تعالی چاہے تو کافر کو دنیا میں اسکے اعمال کا بدلہ دے دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قال النووي – رحمه الله - :
وصرَّح في هذا الحديث بأن يطعم في الدنيا بما عمله من الحسنات أي : بما فعله متقرباً به إلى الله تعالى مما لا يفتقر صحته إلى النية ، كصلة الرحم ، والصدقة ، والعتق ، والضيافة ، وتسهيل الخيرات ، ونحوها .
" شرح مسلم " ( 17 / 150 ) .
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اس حدیث میں وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اسے دنیا ہی میں اسکی نیکیوں کے بدلے میں کھلا پلا دیا جاتا ہے، یعنی: وہ کام جو اس نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے کئے، اور انکی درستگی کیلئے نیت کرنے کی ضرورت نہیں، جیسے : صلہ رحمی، صدقہ، غلام آزاد کرنا، ضیافت کرنا، اور دیگر خیرات وغیرہ کرنا۔۔۔" شرح مسلم " ( 17 / 150 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الثاني : من كان من أعمال الدنيا ، ويَقصد به صاحبه نشر دينه ، وفتنة المسلمين عن دينهم ، فهذا ليس داخلاً في الحديث ، بل صاحبه متوعد عليه أشد الوعيد ؛ لأنه يصد بها عن دين الله ، ويستغل حاجات الناس وفقرهم ومرضهم لذلك الغرض الخبيث ، ومنه ما تفعله " تريزا " وأمثالها من المنصرين ودعاة الباطل .
وأما ما كان من أعمال الدين وتشترط فيه نية التقرب ، كالحج والعمرة والدعاء ، فهذا لا يؤجر عليه الكافر في الدنيا ولا في الآخرة ؛ لكونه باطلاً ، لتخلف شروط قبوله وهي : الإسلام والإخلاص والمتابعة ، ثم إن الكفر يحبط الأعمال فلا يستفيد منها صاحبها يوم القيامة شيئاً .
ترجمہ :
دوسری قسم: یہ ہے کہ دنیاوی کاموں کا ہدف اپنے مذہب کی اشاعت ہو، اور مسلمانوں کو انکے دین سے پھیرنا مقصود ہو، تو ایسے اعمال مذکورہ حدیث میں داخل نہیں ہیں، بلکہ ایسا کرنے والے شخص کیلئے سخت ترین وعید ہے، اس لئے کہ وہ اللہ کے دین سے لوگوں کو روک رہا ہے، اور لوگوں کی مجبوری، تنگ دستی، اور بیماری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرر ہا ہے، بعینہ یہ کام "ٹریسا" اور اس جیسے دیگر عیسائی مشنریوں نے کیا۔
جبکہ ایسے اعمال جن کا تعلق دین سے ہو اور نیت اس میں شرط ہو، جیسے حج عمرہ اور دعا وغیرہ تو ایسے کام کرنے پر کافر کو کوئی اجر نہیں ملے گا، نہ دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں؛ کیونکہ اسکا عمل ہی باطل ہے، اس لئے کہ قبولیت کی شرائط ہی ناقص ہیں، اور وہ ہیں: اسلام، اخلاص ، اور اتباع النبی، بلکہ کفر تو ویسے ہی تمام اعمال کو ضائع کردیتا ہے، جس کی وجہ سے قیامت کے دن ان کے اعمال کوئی فائدہ نہیں دینگے۔
واللہ اعلم .
No comments:
Post a Comment