Tuesday, March 31, 2015

خالص توبہ « توبتہ النصوح »

By HAfsa Fatima Syed 

حفصہ فاطمہ سید 

سورة التحريم
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ  
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۸﴾ 
 اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔ قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناه دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان والوں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا۔ ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا۔ یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے[8]
......

اے ایمان والو!اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جس کے بعد گناہ کی طرف لوٹنا نہ ہو، قریب ہے کہ تمہارا رب تمھاری برائیاں تم سے مٹا دے اور تمھیں ان باغوں میں داخل کر دے، جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ۔جس دن اللہ، نبی اور ان لوگوں کو جو اُن کے ساتھ ایمان لائے رسوا نہ کرے گا، ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑتا ہوگا، وہ عرض کریں گے، اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کردے اور ہمیں بخش دے، بےشک تو ہر چیز پرخوب قادرہے۔)
دنیا کی زندگی محض دھوکا و فریب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ پتہ نہیں کس پل ، لمحہ ، وقت اور عمر میں ساتھ چھوڑ جائے، بس ایسا سمجھیے کہ یہ محض پانی کی وہ بوند ہے جو ہاتھ میں تھمتی ہی نہیں اور زمین پر گر جاتی ہے ۔ ایک موہوم سا تعلق جو کسی بھی لمحہ ،کسی بھی عمر میں ساتھ چھوڑ جائے ۔ اس لمحے میں ہم بے گناہ ہوں یاگناہ گار ۔یہ خیال و گمان میں ہو کہ نہیں کہ یہ دنیا ایک عمر پر پہنچنے کے بعد ہی دھوکہ دیتی ہے ، ایسا تو بالکل ہی نہیں ہوتا ۔ضروری تو نہیں کہ یہ دنیا عمر رسیدہ ہونے پر ہی دھوکہ دے، یہ تو نادان عمر میں بھی ساتھ چھوڑ سکتی ہے اور پختہ عمر میں بھی ۔
ہاں! یہ نادان عمر میں ساتھ چھوڑے تو معافی قبول ہے، کیوں کہ اس عمر میں تو اپنے لخت جگر کو ماں باپ بھی معاف کردیتے ہیں، تو وہ رب تو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا اور معاف کرنے والا ہے۔ اس عمر میں انسان نادان ہوتا ہے، لیکن یہ جو پختہ عمر ہوتی ہے ناں جسے جوانی کہتے ہیں، وہ نادان نہیں ہوتی، نہ اس عمر میں کیا گیا کوئی بھی گناہ نادان ہوتا ہے اور نہ یوں ہی درگزر کیا جاتا ہے، کیوں کہ اس عمر میں ہم نادان نہیں ہوتے بلکہ دانا ، عقل مند اور با شعور ہوتے ہیں ۔ ہم اس عمر میںجو کوئی بھی گناہ کریں، وہ معافی کے قابل نہیں ہوتا، اس عمر میں گناہ کے دو اصول ہوتے ہیں، ایک وہ گناہ جو جانتے ہوئے کیا جائے ، اور اس اصول کے تحت کیے گئے گناہ کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا، اور دوسرا اصول جو ہمیں پتہ نہ ہو کہ یہ گناہ ہے ۔ ان جانے میں ہوجائےتو اس گناہ کو اللہ تعالیٰ ہماری نادانی اور غلطی سمجھ کر معاف کردیتا ہے، لیکن ہاں اے دانا انسان ! وہ جو پہلا اصول ہے ناں، اس میں بھی اللہ تعالیٰ معافی کو قبول کرلیتا ہے، بشرطےکہ معافی رب کے پیمانہ اور اصول کے مطابق ہو، جو رب نے بتایا ہے۔
اے اشرف المخلوقات! تم جاننا چاہو گے وہ طریقہ اور اصول کیا ہے ؟! وہ طریقہ قرآن میں موجود ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
’’اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔ قریب ہے کہ تمھارا رب تمھارے گناہ دور کردے اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔(سورۃ التحریم: 8)
خالص توبہ یہ ہے کہ جس گناہ سے وہ توبہ کر رہا ہے، اسے چھوڑ دے۔ اس پر اللہ کی بارگاہ میں ندامت کا اظہار کرے۔آئندہ اسے نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے۔اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کا حق غصب کیا ہے، اس کا ازالہ کرے۔جس کے ساتھ زیادتی کی ہے اس سے معافی مانگے۔ ساتھ ہی ساتھ اس آیت( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا…)سے چھ باتیں معلوم ہوئیں :
(1)لفظ ’’نصوح‘‘ کو سمجھ لیتے ہیں۔ نصوح سے مراد ہے ’’بالکل خالص۔‘‘ یہ لفظ’’ النصیحہ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ انسان گناہ کرنے کے بعد جب اللہ رب العزت سے سچے دل سے توبہ کرتا ہے اور اپنی جانب سے ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ اب اس سے یہ گناہ دوبارہ سرزد نہ ہو، تو اسے ’’توبۃالنصوح‘‘ کہا جاتا ہے۔
(2)توبہ گناہوں کی معافی اور جنت کامُستحق ہونے کا ذریعہ ہے۔
(3)مُتَّقی مومن قیامت کے دن حضورِ اکرمﷺ کے ساتھ ہوں گے۔
(4) قیامت کا دن نبی کریم ﷺ اوران کے ساتھ والوں کی عزت کا ، جب کہ کافروں کی رُسوائی کا دن ہو گا۔
(5) مومن اگرچہ گنہ گار ہو، لیکن ان شَا ء اللّٰہ آخرت کی رسوائی سے محفوظ رہے گا، اگر اسے سزا بھی دی جائے گی تو اس طرح کہ اس کی رسوائی نہ ہو۔
(6)ابتداء میں پل صراط پر منافقوں کو نور ملے گا، لیکن جب درمیان میں پہنچیں گے تو وہ نور بجھ جائے گا۔
فی زماننا حالات ایسے پرفتن ہیں کہ گناہ کا ارتکاب کرنا بے حد آسان ،جب کہ گناہ سے بچنا بے حد دشوار اور نیکی کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے ،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ گناہوں سے بچنے اور نیک کام کرنے کی بھرپور کوشش کرے اور جو گناہ اس سے سرزَد ہو چکے ہیں ،ان سے سچی توبہ کرے کیوں کہ سچی توبہ ایسی چیز ہے جو انسان کے نامۂ اعمال سے اس کے گناہ مٹادیتی ہے ،چناں چہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

 وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَعْفُوْا عَنِ السَّیِّاٰتِ وَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(سورۃ الشوریٰ : 25)

(اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور جانتاہے جو کچھ تم کرتے ہو۔)
حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ سے روایت ہے،رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے وہ شخص جس کا کوئی گناہ نہ ہو۔‘‘
( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ،4 / 491، الحدیث : 4250)
حضرت انسؓ سے روایت ہے،رسولِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: 
’’جب بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو اس کے گناہ بُھلا دیتا ہے،اس کے اعضا ءکو بھی بھلا دیتا ہے اور اس کے زمین پر نشانات بھی مٹا ڈالتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ سے ملے گا تو اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔‘‘
( الترغیب والترہیب،کتاب التوبۃ والزہد،الترغیب فی التوبۃ والمبادرۃ بہا واتباع السیّئۃ الحسنۃ،4 / 48،الحدیث : 17)
یاد رکھیے! محض زبان سے توبہ توبہ کرلینا معنی نہیں رکھتا۔خالص، صاف اور سچے دل کے ساتھ معافی مانگی جائے ، خالص توبہ کی جائے، اس کےعلاوہ کیے گئے گناہ کا رب کے پاس اعتراف کیا جائے اور سب سے اہم اصول کہ اب اس گناہ کو دوبارہ نہ کرنے کا مصمم اور پختہ ارادہ کیا جائے۔ اس طرح کہ اگر دوبارہ قلب اور قدم ڈگمگائے تو یہ ارادہ اس سے روک لے ،یہ خالص دل سے کی گئی توبہ اور یہ خالص رب سے کیا گیا اعتراف ان ڈگمگاتے دل و دماغ اور قدم کو روک لے۔ 
ہم جو یوں شب و روز پریشان اور مضطرب ہوتے ہے ناں گناہوں کی وجہ سے،یہ گناہ ہماری روح پر دھیرے دھیرے ہی پر ضرب لگاتے جاتےہیں اور سمجھ نہیں آتا کہ یہ بے چینی کس بات کی ہے؟یوں تو چاہیے کہ ہر لمحہ، ہر پل، ہر وقت ہی رب سے توبہ و استغفار اور شکرگزاری کا دامن تھامے رکھے تاکہ جب ان نا معلوم سی سانسوں کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو اچھے اعمال کا دامن اپنے ہاتھ رہے۔
اے ہمارے رب! ہمیں سابقہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے اور آئندہ گناہوں سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرما، آمین!
اے ہمارے رب! ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے، یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے ۔آمین یا رب العالمین!

خالص توبہ 

 توبہ خالص یہ ہے کہ گناہ کو اس وقت چھوڑ دے، جو ہو چکا ہے اس پر نادم ہو اور آئندہ کے لیے نہ کرنے کا پختہ عزم ہو، اور اگر گناہ میں کسی انسان کا حق ہے تو چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ حق باقاعدہ ادا کر دے۔‏‏‏‏ 
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: نادم ہونا بھی توبہ کرنا ہے ۔ 
 [مسند احمد:33/1:صحیح] ‏‏‏‏ 
٭ ٭ ٭

خالص توبہ یہ ہے کہ جس گناہ سے وہ توبہ کر رہا ہے، اسے چھوڑ دے۔ اس پر اللہ کی بارگاہ میں ندامت کا اظہار کرے۔آئندہ اسے نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے۔اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کا حق غصب کیا ہے، اس کا ازالہ کرے۔جس کے ساتھ زیادتی کی ہے اس سے معافی مانگے۔















سیدنا  ابوذر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی رضی اللہ عنہ سے پوچھا  «توبتہ النصوح» کیا ہے؟ فرمایا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قصور سے گناہ ہو گیا، پھر اس پر نادم ہونا، اللہ تعالیٰ سے معافی چاہنا اور پھر اس گناہ کی طرف مائل نہ ہونا۔‏‏‏‏ 
حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں  «توبتہ النصوح» یہ ہے کہ جیسے گناہ کی محبت تھی ویسا ہی بغض دل میں بیٹھ جائے اور جب وہ گناہ یاد آئے اس سے استغفار ہو، جب کوئی شخص توبہ کرنے پر پختگی کر لیتا ہے اور اپنی توبہ پر جما رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام اگلی خطائیں مٹا دیتا ہے، جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ { اسلام لانے سے پہلے کی تمام برائیاں اسلام فنا کر دیتا ہے اور توبہ سے پہلے کی تمام خطائیں توبہ سوخت کر دیتی ہے }۔  [صحیح مسلم:121] ‏‏‏‏ 
اب رہی یہ بات کہ  «توبتہ النصوح» میں یہ شرط بھی ہے کہ توبہ کرنے والا پھر مرتے دم تک یہ گناہ نہ کرے۔ جیسے کہ احادیث و آثار ابھی بیان ہوئے جن میں ہے کہ پھر کبھی نہ کرے، یا صرف اس کا عزم راسخ کافی ہے کہ اسے اب کبھی نہ کروں گا گو پھر بہ متضائے بشریت بھولے چوکے ہو جائے، جیسے کہ ابھی حدیث گزری کہ توبہ اپنے سے پہلے گناہوں کو بالکل مٹا دیتی ہے، تو تنہا توبہ کے ساتھ ہی گناہ معاف ہو جاتے ہیں یا پھر مرتے دم تک اس کام کا نہ ہونا گناہ کی معافی کی شرط کے طور پر ہے؟
پس پہلی بات کی دلیل تو یہ صحیح حدیث ہے کہ { جو شخص اسلام میں نیکیاں کرے وہ اپنی جاہلیت کی برائیوں پر پکڑا نہ جائے گا اور جو اسلام لا کر بھی برائیوں میں مبتلا رہے وہ اسلام اور جاہلیت کی دونوں برائیوں میں پکڑا جائے گا }۔  [صحیح بخاری:6921] ‏‏‏‏ 
پس اسلام جو کہ گناہوں کو دور کرنے میں توبہ سے بڑھ کر ہے، جب اس کے بعد بھی اپنی بدکرداریوں کی وجہ سے پہلی برائیوں میں بھی پکڑ ہوئی، تو توبہ کے بعد بطور اولیٰ ہونی چاہیئے۔  «وَاللهُ اَعْلَمُ»  
لفظ  «عَسٰی» گو تمنا، امید اور امکان کے معنی دیتا ہے لیکن کلام اللہ میں اس کے معنی تحقیق کے ہوتے ہیں پس فرمان ہے کہ خالص توبہ کرنے والے قطعاً اپنے گناہوں کو معاف کروا لیں گے اور سرسبز و شاداب جنتوں میں آئیں گے۔ 
پھر ارشاد ہے ’ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو ہرگز شرمندہ نہ کرے گا، انہیں اللہ کی طرف سے نور عطا ہو گا جو ان کے آگے آگے اور دائیں طرف ہو گا، اور سب اندھیروں میں ہوں گے اور یہ روشنی میں ہوں گے ‘، جیسے کہ پہلے سورۃ الحدید کی تفسیر میں گزر چکا، جب یہ دیکھیں گے کہ منافقوں کو جو روشنی ملی تھی عین ضرورت کے وقت وہ ان سے چھین لی گئی اور وہ اندھیروں میں بھٹکتے رہ گئے تو دعا کریں گے کہ اے اللہ ہمارے ساتھ ایسا نہ ہو ہماری روشنی تو آخر وقت تک ہمارے ساتھ ہی رہے ہمارا نور ایمان بجھنے نہ پائے۔
بنو کنانہ کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { فتح مکہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے میں نے نماز پڑھی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو سنا  «الَّلهُمَّ لاَ تُخْزِنِيْ يَوْمَ الْقِيَامَة» میرے اللہ! مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرنا }۔ ۱؎[مسند احمد:234/4:صحیح] ‏‏‏‏ 
ایک حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: قیامت کے دن سب سے پہلے سجدے کی اجازت مجھے دی جائے گی اور اسی طرح سب سے پہلے سجدے سے سر اٹھانے کی اجازت بھی مجھ ہی کو مرحمت ہو گی میں اپنے سامنے اور دائیں بائیں نظریں ڈال کر اپنی امت کو پہچان لوں گا ایک صحابی نے کہا: یا رسول اللہ! آپ انہیں کیسے پہچانیں گے؟ وہاں تو بہت سی امتیں مخلوط ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے لوگوں کی ایک نشانی تو یہ ہے کہ ان کے اعضاء وضو منور ہوں گے، چمک رہے ہوں گے کسی اور امت میں یہ بات نہ ہو گی دوسری پہچان یہ ہے کہ ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے، تیسری نشانی یہ ہو گی کہ سجدے کے نشان ان کی پیشانیوں پر ہوں گے جن سے میں پہچان لوں گا چوتھی علامت یہ ہے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے ہو گا }۔  [مسند احمد:199/5:ضعیف] ‏‏‏‏

No comments:

Post a Comment