Wednesday, November 27, 2024

وآت ذاالقربی حقه - اور رشتہ داروں کاحق ادا کرتے رہو

  

 اور رشتہ داروں کاحق ادا کرتے رہو 

بنی اسرائیل : 26 ⭕ 

 والدین کے حق کے بعد حقوق العباد میں رشتہ داروں کا حق سب سے زیادہ اھمیت کا حامل ہے. اسلام نے رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی پر بڑا زور دیا ہے اور اسے صلہ رحمی سے تعبیر کیا ہے، اسکی بڑی فضیلت آئی ہے، اور اس سے اعراض کرنے والوں کو ڈرایا گیا ہے. 


 اللہ تعالی نے قرآن مجید میں تقریبا 9 مقامات پر رشتے داروں کو انکا حق دینے یا ان کیساتھ  حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ان کا حق یہ ھیکہ ان سے حسن سلوک کیا جائے، انہیں اذیت نہ دی جائے، ان سے بدسلوکی نہ کی جائے اور ان میں سے جو محتاج ہوں انکی مدد کی جائے اور ان سے خوشگوار تعلقات قائم کئے جائیں 


 قرآن مجید میں اللہ تعالی نے صلہ رحمی کی شدید تاکید کی ہے. چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے "واتقواللہ الذی تساءلون به والارحام " (نساء:1)

اور اللہ سے ڈرو جسکا واسطہ دےکر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی رشتوں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو-

 اور دوسری جگہ فرمایا "وآت ذاالقربی حقه "(بنی اسرائیل :26)

اور رشتہ داروں کاحق ادا کرتے رہو -


 اور اللہ تعالی رشتہ داروں کی امداد کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں "ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربی " (نحل :90) 

بے شک اللہ تعالی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کو دینے کاحکم دیتا ہے 


 اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا انکے ساتھ امداد وتعاون کا معاملہ کرنا ان پراحسان نہیں ہے بلکہ یہ وہ حق ہے جو اللہ نے اصحاب حیثیت پر انکے رشتے داروں کے معاملے میں عائد کیا ہے. رشتہ داروں کوامداد کرکے انہیں یہ سمجھنا چاھئے کہ انہوں نے اپنا فرض اور حق ادا کیا ہے کوئی احسان نہیں کیا. اکثر لوگ یہاں کوتاہی کا ارتکاب کرتے ہیں اور رشتے داروں کا حق ادا کرکے ان پر احسان جتاتے اور انکی عزت نفس اور وقار کو مجروح کرتے ہیں اس طرح اپنی نیکی کو بھی برباد کرلیتے ہیں. اس لئے قرآن نےاہل ایمان کو متنبہ کیا ہے "لا تبطلواصدقتکم بالمن والاذی " (بقرہ :264)

اور احسان جتلاکر تکلیف دہ باتیں کرکے اپنے صدقات ضائع مت کرو -


 یہی وجہ ھیکہ ایک رشتے دار باوجود غریب اور ضرورت مند ہونے کے اپنے کسی مالدار رشتے دار سے مالی تعاون لینے سے بالعموم گریز کرتا ہے لیکن کتنے ستم کی بات ھیکہ آج کل خاندان کے بعض افراد تو عیاشی سے زندگی بسر کرتے ہیں اور انہی کے کئی رشتہ دار روٹی، کپڑے کو ترستے ہیں 


 اسلام کی تعلیم ھیکہ تم سب سے پہلے اپنے رشتے داروں کا خیال رکھو اسلام کی یہ ایک نہایت ممتاز اور بہترین تعلیم ہے اگر لوگ صحیح معنوں میں اسپر عمل کریں تو کسی ضرورت مند کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی یا دربدر کاسئہ گدائی لئے پھرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی. کیونکہ ہر خاندان میں چند افراد ضرور صاحب حیثیت ہوتے ہیں اسی طرح ہر خاندان کے لوگ ایک دوسرے کے حالات سے بھی بخوبی واقف ہوتے ہیں اگر ہر خاندان کے اصحاب حیثیت اپنے اپنے خاندان کے ضرورت مندوں کی خاموشی کیساتھ آبرومندانہ طریقے سے امداد کردیا کریں. کوئی بے سہارا یتیم وبیوہ ہوتو اسکی کفالت کریں، کوئی مریض علاج کرانے سے قاصر ہوتو اسکے علاج ومعالجہ کا انتظام کریں، جوان بچیاں گھر میں ہوں تو انکی شادیوں میں تعاون کریں. اگر ایسا ہونا شروع ہوجائے تو گداگری کی لعنت کابھی خاتمہ ہوجائے گا-


  ⚪صلہ رحمی کے فضائل وفوائد 


 ◼صلہ رحمی سے رزق میں کشادگی اور عمر میں برکت آتی ہے  حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ھیکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا *"جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اسکے رزق میں فراوانی اور اسکے اجل میں (موت ) میں دیر ہو تو وہ صلہ رحمی کرے"* (بخاری، کتاب الادب )

   

 🔺️صلہ رحمی کرنے سےخاندان میں محبت پیداہوتی ہے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا *"تم اپنا نسب معلوم کرلو تاکہ صلہ رحمی کرسکو کیونکہ صلہ رحمی سے گھر والوں میں محبت پیدا ہوتی ہے، مال میں اضافہ ہوتا ہے اوراجل (موت)میں تاخیر ہوتی ہے "* (ترمذی ج4ص351)


🔷️صلہ رحمی کرنا ایمان کی علامت ہے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ھیکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا *"جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر رکھتا ہو وہ صلہ رحمی کرے "* (بخاری، کتاب الادب)


 🔵صلہ رحمی کرنا جنت میں لے جانےوالے اعمال میں سے ہے   حضرت ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ھیکہ ایک شخص نےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے اللہ کے رسول !مجھے ایسا عمل بتادیجئے جو مجھے جنت میں داخل کردے، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا *"تواللہ کی عبادت کر اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ بنا اور نماز قائم کر اور زکات ادا کر اور صلہ رحمی کر "* (بخاری، کتاب الادب )

   


🔵صلہ رحمی کرنا اللہ کے محبوب اعمال میں سے ہے  خثعم قبیلے کے ایک شخص کا بیان ہے کہ میں اپنے چند ساتھیوں سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا کیاآپ دعوی کرتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ہاں، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کونسا عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ پر ایمان لانا. میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! پھر کونسا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر صلہ رحمی کرنا، میں نے کہا: پھر کونسا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر نیکی کا حکم دینا اوربرائی سے منع کرنا. (صحیح الترغیب والترھیب )


◼صلہ رحمی کرنے سے اللہ تعالی گناہ معاف فرمادیتا ہے   اللہ تعالی فرماتے ہیں "(وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ)"[سورة النور 22] 

اور تم میں سے جو بزرگی اورکشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں مسکینوں اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کو دینے سے قسم نہیں کھا لینی چاھئے بلکہ معاف کردینا اور درگذرکردینا چاھئے کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالی تمہارے گناہ معاف فرمادے ؟وہ معاف کرنے والا بڑامہربان ہے -


 یہ آیت دراصل اسوقت نازل ہوئی تھی جب ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا پر تہمت لگائی گئی تھی اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی اس فتنہ کی رو میں بہہ گئے تھے. ان میں سے ایک مسطح  رضی اللہ عنہ تھے جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار تھے اور چونکہ یہ محتاج تھے اسلئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں خرچہ وغیرہ دیا کرتے تھے لیکن جب یہ تہمت لگانے والے لوگوں میں شامل ہوگئے تو آسمان سے وحی کے ذریعے حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنھا کی براءت نازل ہونے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم اٹھائی کہ وہ مسطح رضی اللہ عنہ کو کچھ نہیں دیں گے. اسوقت یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں عفودرگذر کی تلقین کی گئی تو ابوبکررضی اللہ عنہ نے کہا *"کیوں نہیں اے ہمارے رب!ہم یقینا یہ چاھتے ہیں کہ تو ہمیں معاف فرمادے "* اسکے بعد انہوں نے مسطح رضی اللہ عنہ کا خرچہ پہلے کی طرح جاری کردیا. (بخاری، کتاب التفسیر )


🔶️رشتہ داروں کو دینے سے دوگنا اجر ملتا ہے   آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا *"کسی مسکین پر صدقہ کرنا صدقہ ہے اور یہی صدقہ کسی (غریب )رشتے دار پر کیا جائے تواسکی حیثیت دوگنا ہوجاتی ہے ایک صدقے کا ثواب اور دوسراصلہ رحمی کا "  (مسلم، کتاب الزکاة)


صلہ رحمی کے ان عظیم فوائد کے پیش نظر ہمیں اس بات کی پوری کوشش کرنی چاھئیے کہ اقرباء سے ہمارے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہیں اور ایک دوسرے سے ہم اچھا سلوک کرتے رہیں - 

      

♦️قطع رحمی کے نقصانات 


🔺️قطع رحمی کرنا اللہ کی لعنت کا موجب ہے  اللہ تعالی فرماتے ہیں. "(وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۙ أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ)"

[سورة الرعد 25] 

اور جو اللہ کے عہد کو اسکی مضبوطی کے بعد توڑ دیتے ہیں اورجس چیز کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے وہ اسے توڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان پر لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر ہے -


🔴قطع رحمی کرنے والا جنت سے محروم   حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کا بیان ھیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا " (بخاری، کتاب الادب )


قطع رحمی کرنے والے کو دنیا میں ہی سزا مل جاتی ہے    حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ھیکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا *"بغاوت اورقطع رحمی ایسے گناہ ہیں کہ اللہ تعالی انکی سزا دنیا کے اندر ہی دے دیتا ہے "*  (صحیح الترغیب والترھیب )


🔷قطع رحمی کرنے والے کا کوئی عمل قبول نہیں   حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ھیکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "سب لوگوں کے اعمال ہر شب جمعہ کو پیش کئے جاتے ہیں تو قطع رحمی کرنے والے شخص کا عمل قبول نہیں کیا جاتا"  (صحیح الترغیب والترھیب )


قطع رحمی کے ان نقصانات کے پیش نظر ہم سب کو اس سے پرھیز کرنا چاھئے اور حتی الامکان اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنا چاھئے -

      

        ◼حقیقی صلہ رحمی  


 حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کابیان ھیکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں صلہ رحمی کرے، بلکہ صلہ رحمی کرنےوالا وہ ہے کہ، جس سے قطع رحمی کی جائے تو پھر بھی وہ صلہ رحمی کرے " (بخاری، کتاب الادب )


 بدلے میں صلہ رحمی سے مراد یہ ھیکہ مثلا رشتہ دار اس سے ملتا ہے، تویہ بھی اس سے ملتا ہے. اوراگروہ نہیں ملتا ہے، تو یہ بھی اس سے نہیں ملتا ہے. جبکہ ہونا یہ چاھئے کہ اگر وہ نہ ملے تو بھی یہ اس سے میل ملاپ رکھے، اگر وہ قطع رحمی کریں توان سے صلہ رحمی کرے، اگر وہ بدسلوکی کریں تو ان سے اچھا سلوک کرے، گالی کا جواب گالی سے نہیں دعا سے دیں، اور کانٹے بکھیرنے والوں کو گل دستہ پیش کرتے رہیں، نہ کہ خار دار جھاڑیاں. اور اگر وہ نہ دیں  تب بھی انہیں دیا جائے. تب جاکر یہ صلہ رحمی کرنے والاکہلائے گا -


 اور حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! صلی اللہ علیہ وسلم ، میرے کچھ رشتے دار ایسے ہیں جن سے میں صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے قطع رحمی کرتے ہیں، میں ان سے حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بدسلوکی کرتے ہیں، میں ان سے حوصلہ سے پیش آتا ہوں اوروہ میرے ساتھ جاہلوں کا سا برتاؤ کرتے ہیں. توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا "اگر تو ایسا ہی ہے جیساکہ تونے کہا توگویا توانکے منہ میں گرم راکھ ڈالتاہے اورجب تک تواسی طرح کرتا رہے گا تیرے ساتھ اللہ کیطرف سے ہمیشہ ایک پشت پناہی کرنے والا رہے گا " (مسلم، کتاب البر والصلہ )-

No comments:

Post a Comment