Thursday, March 14, 2024

روزہ افطار کروانے کا ثواب

سعنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الجُهَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا

 الترمذي:3/162رقم

807وقال:«هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»وھو کذالک ۔

زید بن خالد الجھنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”جس نے کسی روزے دار کو افطار کرایا، اسے روزے دار کے برابر ثواب ملے گا اور روزے دار کے اجر وثواب میں سے کوئی کمی نہ ہو گی“۔ 

اس حدیث میں‌ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے روزہ افطار کرانے کی فضیلت بیان کی ہے اوراس کا فائدہ یہ بتلایا ہے کہ روزہ افطار کرانے والے کوبھی اتنا ثواب ملتاہے جتنا روزہ افطارکرنے والے کو ملتاہے۔

اس حدیث سے متعلق چند باتوں کو سمجھ لینا چاہے:

پہلی بات یہ ہے کہ اس حدیث میں‌ روزہ افطار کرانے کا جوثواب بتلایا گیا وہ اسی صورت میں حاصل ہوگا جب افطار حلال کمائی سے کرایا جائے، چنانچہ اس سلسلے میں ایک صریح روایت میں یہ شرط بھی ہے ’’مِنْ كَسْبٍ حَلَالٍ ‘‘ یعنی حلال کمائی سے لیکن یہ روایت ضعیف ہے،تفصیل کے دیکھیں:[سلسلة الأحاديث الضعيفة،رقم1333]

تاہم دیگرعمومی آیات واحادیث سے یہ بات مستنبط ہے۔

اس حدیث سے متعلق دوسری بات یہ کہ اس میں مطلقا کسی بھی شخص کو افطار کرانے کی بات کہی گئی ہے ،اس کے لئے غرباء ومساکین کی تخصیص نہیں ہے، اس لئے اس حدیث‌ میں مذکورثواب حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف غرباء ومساکین ہی کو افطار کرایا جائےتبھی مطلوبہ ثواب ملے گا، بلکہ اگر مالدار اورامیرشخص کوافطار کروادیں تب بھی یہ ثواب حاصل ہوجائے گا، شیخ بن باز رحمہ اللہ کا بھی یہی فتوی ہے، ملاحظہ ہو:[مجموع فتاوى ابن باز25/ 207]۔

تاہم بہتریہی ہے کہ افطارکروانے کے لئے غرباء ومساکین ہی کا انتخاب کیا جائے کیونکہ اس میں دو فائدہ ہے ایک تو افطار کرانے والے کو ثواب مل جاتاہے اوردوسرا غریب ومسکین کا بھلا بھی ہوجاتاہے، لیکن اگر غرباء ومساکین نہ ملیں تو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اب اس حدیث پر عمل کرنے کا موقع ہی نہ رہا بلکہ ایسی صورت میں کسی کو بھی افطار کراکریہ ثواب حاصل کیا جاسکتاہے۔

بعض حضرات اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اگر ہم نے کسی دوسرے کے یہاں افطار کرلیا تو ہمارے روزے کا ثواب افطارکرانے والے کو مل جائے گا یہ سراسر غلط فہمی بلکہ جہالت ہے کیونکہ اس حدیث میں افطار کرانے والے کے لئے جس ثواب کی بات کہی گئی ہے وہ ثواب اسے الگ سے ملے گا، اس کے لئے اس کے لئے افطار کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

حدیث میں باقائدہ اس چیز کی صراحت ہے ’’غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا‘‘ یعنی افطار کرنے والے روزہ دارکے ثواب میں کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔

جو شخص کسی کے یہاں افطار کرے تو افطار کے بعد اسے درج ذیل دعاپڑھنی چاہئے:

أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ [سنن أبي داود:3/ 367رقم 3854 واسنادہ صحیح]۔

”أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ“ یعنی الله تمھیں اتنا ثواب دے، جتنا روزے دار کو افطار کرانے والے کا ہوتا ہے۔ یہ جملہ دعائیہ ہے

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سعد بن عبادہ رضی الله عنہ کے پاس آئے، تو وہ آپ کی خدمت میں روٹی اور تیل لے کر آئے، آپ ﷺ نے اسے کھایا، پھر آپ نے یہ دعا پڑھی:”أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ“ یعنی تمھارے پاس روزے دار افطار کیا کریں، نیک لوگ تمھارا کھانا کھائیں اور فرشتے تمھارے لیے دعائیں کریں۔ 

اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ - اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔

شرح

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول  خزرج کے سردار سعد بن عبادۃ رضی الله عنہ کے پاس گئے۔ ”چنانچہ وہ روٹی اور تیل لے کر آئے“ اس جملے میں اس چیز کو پیش کرنے کا بیان ہے، جو آسانی سے میسر ہو، 

یہ تہذیب کے خلاف نہیں ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اسے کھایا۔ پھر فرمایا یعنی کھانا کھانے کے بعد:

أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ“ یعنی الله تمھیں اتنا ثواب دے، جتنا روزے دار کو افطار کرانے والے کا ہوتا ہے۔ یہ جملہ دعائیہ ہے۔

 ”وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَ“ ابرار جمع ہے ”بر کی،

 بمعنی متقی۔ ”وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ“ یعنی تمھارے لیے استغفار کریں

No comments:

Post a Comment