تین رکعت وتر ادا کرنے کے دوشرعی طریقے ہیں وہ یہ ہیں:
پہلا طریقہ: تین رکعت کو ایک ہی تشہد کیساتھ پڑھا جائے۔
دوسرا طریقہ: کہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے، اور پھر ایک رکعت وتر ادا کرے۔
نماز وتر ألله تعالى كے قرب كے ليے سب سے افضل اور عظيم عبادات ميں شامل ہوتى ہے، حتى كہ بعض علماء كرام ـ يعنى احناف ـ تو اسے واجبات ميں شمار كرتے ہيں، ليكن صحيح يہى ہے كہ يہ سنت مؤكدہ ميں شامل ہوتى ہے جس كى مسلمان شخص كو ضرور محافظت كرنى چاہيے، اور اسے ترك نہيں كرنا چاہيے.
امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" نماز وتر چھوڑنے والا شخص برا آدمى ہے، اس كى گواہى قبول نہيں كرنى چاہيے"
جو كہ نماز وتر كى ادائيگى كى تاكيد پر دلالت كرتى ہے.
نماز وتر كى ادائيگى كى كيفيات كا خلاصہ ہم مندرجہ ذيل نقاط ميں بيان كر سكتے ہيں:
نماز وتر كى ادائيگى كا وقت:
اس كا وقت نماز عشاء كى ادائيگى سے شروع ہوتا، يعنى جب انسان نماز عشاء ادا كر لے چاہے وہ مغرب اور عشاء كو جمع تقديم كى شكل ميں ادا كرے تو عشاء كى نماز ادا كرنے سے ليكر طلوع فجر تك نماز وتر كا وقت رہے گا.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا الله تعالى نے تمہيں ايك نماز زيادہ دى ہے اور وہ نماز وتر ہے جو الله تعالى نے تمہارے ليے عشاء اور طلوع فجر كے درميان بنائى ہے"
سنن ترمذى حديث نمبر ( 425 ) علامہ البانى رحمہ الله تعالى نے اسے صحيح ترمذى ميں صحيح كہا ہے.
اور كيا نماز وتر كو اول وقت ميں ادا كرنا افضل ہے يا كہ تاخير كے ساتھ ادا كرنا افضل ہے ؟
سنت نبويہ اس پر دلالت كرتى ہے كہ جو شخص رات كے آخر ميں بيدار ہونے كا طمع ركھتا ہو اس كے ليے نماز وتر ميں تاخير كرنا افضل ہے، كيونكہ رات كے آخرى حصہ ميں نماز پڑھنى افضل ہے، اور اس ميں فرشتے حاضر ہو تے ہيں، اور جسے خدشہ ہو كہ وہ رات كے آخر ميں بيدار نہيں ہو سكتا تو اس كے ليے سونے سے قبل نماز وتر ادا كرنا افضل ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے.
جابر رضى الله تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا:
" جسے خدشہ ہو كہ وہ رات كے آخر ميں بيدار نہيں ہو سكے گا تو وہ رات كے اول حصہ ميں وتر ادا كر لے، اور جسے يہ طمع ہو كہ وہ رات كے آخرى حصہ ميں بيدار ہو گا تو وہ وتر رات كےآخرى حصہ ميں ادا كرے، كيونكہ رات كے آخرى حصہ ميں ادا كردہ نماز مشھودۃ اور يہ افضل ہے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 755 ).
امام نووى رحمہ الله تعالى كہتے ہيں:
اور يہى صحيح ہے، اور باقى مطلق احاديث كو اس صحيح اورصريح افضليت پر محمول كيا جائے گا، ان ميں يہ حديث بھى ہے:
" ميرى دلى دوست نے مجھے وصيت كى كہ ميں وتر ادا كر سويا كروں"
يہ اس شخص پر محمول ہو گى جو بيدار نہيں ہو سكتا. اھـ
ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 3 / 277 ).
وتر ميں ركعات كى تعداد:
كم از كم وتر ايك ركعت ہے، كيونكہ رسول كريم صلى الله عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" رات كے آخر ميں ايك ركعت وتر ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 752 ).
اور رسول كريم صلى الله عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" رات كى نماز دو دو ہے، لہذا جب تم ميں سے كسى ايك كو صبح ہونے كا خدشہ ہو تو وہ ايك ركعت ادا كر لے جو اس كى پہلى ادا كردہ نماز كو وتر كر دے گى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 911 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 749 )
لہذا جب انسان ايك ركعت ادا كرنے پر ہى اكتفا كرے تو اس نے سنت پر عمل كر ليا...
اور اس كے ليے تين اور پانچ اور سات اور نو ركعت وتر بھى ادا كرنے جائز ہيں.
اگر وہ تين وتر ادا كرے تو اس كے ليے دو طريقوں سے تين وتر ادا كرنے مشروع ہيں:
پہلا طريقہ:
وہ تين ركعت ايك ہى تشھد كے ساتھ ادا كرے. اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ميں پائى جاتى ہے:
عائشہ رضى الله تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" رسول كريم صلى الله عليہ وسلم وتر كى دو ركعتوں ميں سلام نہيں پھيرتے تھے"
اور ايك روايت كے الفاظ يہ ہيں:
" نبى كريم صلى الله عليہ وسلم تين وتر ادا كرتے تو اس كى آخر كے علاوہ نہيں بيٹھتے تھے"
سنن نسائى ( 3 / 234 ) سنن بيھقى ( 3 / 31 ) امام نووى رحمہ الله تعالى المجموع ميں لكھتےہيں: امام نسائى نے حسن سند كے ساتھ اور بيھقى نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے. اھـ
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 7 ).
دوسرا طريقہ:
وہ دو ركعت ادا كر كے سلام پھير دے اور پھر ايك ركعت واتر ادا كرے اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
ابن عمر رضى الله تعالى عنہما دو ركعت اور اپنے وتر كے درميان سلام پھيرتے تھے، اور انہوں نے بتايا كہ نبى كريم صلى الله عليہ وسلم ايسا ہى كيا كرتے تھے"
رواہ ابن حبان حديث نمبر ( 2435 ) ابن حجر رحمہ الله تعالى فتح البارى ( 2 / 482 ) ميں كہتے ہيں اس كى سند قوى ہے. اھـ
ليكن اگر وہ پانچ يا سات وتر اكٹھے ادا كرے تو صرف اس كے آخر ميں ايك ہى تشھد بيٹھے اور سلام پھير دے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
عائشہ رضى الله تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" رسول كريم صلى الله عليہ وسلم رات كو گيارہ ركعت نماز ادا كرتے اس ميں پانچ ركعت وتر ادا كرتے اور ان ميں آخرى ركعت كے علاوہ كہيں نہ بيٹھتے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 737 ).
اور ام سلمہ رضى الله تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" رسول كريم صلى الله عليہ وسلم پانچ اور سات وتر ادا كرتے اور ان كے درميان سلام اور كلام كے ساتھ عليدگى نہيں كرتے تھے"
مسند احمد ( 6 / 290 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1714 ) نووى رحمہ الله كہتے ہيں اس كى سند جيد ہے.
ديكھيں: الفتح الربانى ( 2 / 297 ) اور علامہ البانى رحمہ الله تعالى نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور جب اكٹھى نو ركعت وتر ادا كرنى ہوں تو تو آٹھويں ركعت ميں تشھد بيٹھ كر پھر نويں ركعت كے ليے كھڑا ہو اور سلام نہ پھيرے اور نويں ركعت ميں تشھد بيٹھ كر سلام پھيرے گا، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
عائشہ رضى الله تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" نبى كريم صلى الله عليہ وسلم نو ركعات ادا كرتے اور ان ميں آٹھويں ركعت ميں بيٹھ كر الله تعالى كا ذكر اور اس كى حمد بيان كرتے اور دعاء كرتے اور سلام پھيرے بغير اٹھ جاتے پھر اٹھ كر نويں ركعت ادا كر كے بيٹھتے اور الله تعالى كا ذكر اور اس كى حمد بيان كر كے دعاء كرتے اور پھر ہميں سنا كر سلام پھيرتے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 746 ).
اور اگر وہ گيارہ ركعت ادا كرے تو پھر ہر دو ركعت ميں سلام پھيرے اور آخر ميں ايك وتر ادا كرے.
وتر ميں كم از كم اور اس ميں قرآت كيا ہو گى:
وتر ميں كم از كم كمال يہ ہے كہ دو ركعت ادا كر كے سلام پھيرى جائے اور پھر ايك ركعت ادا كر كے سلام پھيرے، اور تينوں كوايك سلام اور ايك تشھد كے ساتھ ادا كرنا بھى جائز ہے، اس ميں دو تشھد نہ كرے جيسا كہ بيان ہو چكا ہے.
اور پہلى ركعت ميں سبح اسم ربك الاعلى پورى سورۃ پڑھے، اور دوسرى ركعت ميں سورۃ الكافرون اور تيسرى ركعت ميں سورۃ الاخلاص پڑھے.
ابى بن كعب رضى الله تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى الله عليہ وسلم وتر ميں سبح اسم ربك الاعلى اور قل يا ايھالكافرون اور قل ہو الله احد پڑھا كرتے تھے"
سنن نسائى حديث نمبر ( 1729 ) علامہ البانى رحمہ الله تعالى نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
نماز وتر كى مندرجہ بالا سب صورتيں اور كيفيات سنت ميں وارد ہيں اور اكمل يہ ہے كہ مسلمان شخص ايك ہى كيفيت ميں نماز وتر ادا نہ كرتا رہے بلكہ اسے كبھى ايك اور كبھى دوسرى كيفيت ميں نماز وتر ادا كرنى چاہيے تا كہ وہ سنت كے سب طريقوں پر عمل كر سكے.
اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز وتر کی تین رکعات کو دو تشہد اور ایک سلام کیساتھ نمازِ مغرب کی طرح پڑھنے سے منع فرمایا ہے، اور ہم نے اس کیفیت سے ممانعت کے متعلق علمائے کرام کے فتاوی جات نبى كريم صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم تين وتر اس طرح ادا نہ كرو كہ مغرب كے مشابہ ہوں "
اس سے نبى كريم صلى الله عليہ وسلم كى مراد يہ ہے ـ جيسا كہ اہل علم نے بيان كيا ہے ـ ان تين ركعات ميں پہلى تشھد بيٹھنا ممنوع ہے كيونكہ اس طرح مغرب كى نماز سے مشابہت ہوتى ہے.
ديكھيں: فتح البارى ابن حجر ( 4 / 301 ) حافظ رحمہ الله كہتے ہيں: اس حديث كى سند شيخين كى شرط پر ہے.
اور ديكھيں: عون المعبود حديث نمبر ( 1423 ) كى شرح، اور صلاۃ التراويح للالبانى ( 97 ).
دعاء قنوت سے قبل تكبير كہہ كر رفع اليدين كرنا حقيقى فرق نہيں؛ كيونكہ نماز ميں رفع اليدين چار مقام پر كيا جاتا ہے:
1 - تكبير تحريمہ كے وقت.
2 - ركوع كرتے وقت.
3 - ركوع سے سر اٹھاتے ہوئے.
4 - پہلى تشھد سے اٹھ كر.
تو نمازى كے ليے ان چار مقام كے علاوہ كسى اور جگہ رفع اليدين كرنا مشروع نہيں ہے.
ديكھيں: فتاوى اركان اسلام للشيخ محمد بن عثيمينرحمہ الله صفحہ ( 312 ).
دوم:
نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز کے طریقہ کار جس پر آپ کے صحابہ نے بھی عمل کیا ، نبی صلی الله علیہ وسلم کی عام چال چلن، اور خصوصی طور پر نماز میں اقتدا کی جائےاور آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے کہ: (ایسے نماز پڑھو جیسے کہ مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو) بخاری: (605)
قنوت وتر کے بارے میں ۔
اول:
دعاء قنوت وتر كى آخرى ركعت ميں ركوع كے بعد ہوگى، اور اگر ركوع سے قبل بھى پڑھ لى جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن ركوع كے بعد افضل ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ الله فتاوى ميں كہتے ہيں:
اور رہى قنوت: تو لوگ اس ميں دو فريق اور ايك وسط طبقہ ہے، ان ميں سے كچھ تو كہتے ہيں كہ قنوت صرف ركوع سے قبل ہے، اور كچھ يہ كہتے ہيں كہ: ركوع كے بعد ہے.
اور اہل حديث كے فقھاء مثلا امام احمد وغيرہ دونوں كو جائز قرار ديتے ہيں، كيونكہ سنت ميں يہ دونوں وارد ہيں، اگرچہ انہوں نے ركوع كے بعد قنوت كواختيار كيا ہے؛ كيونكہ يہ اكثر اور اقيس ہے. اھـ
ديكھيں مجموع الفتاوى ابن تيميہ رحمہ الله ( 23 / 100 ).
اور اس ميں وہ ہاتھ اٹھائے، عمر رضى الله تعالى عنہ سے يہ ثابت ہے، جيسا كہ بيھقى رحمہ الله تعالى نے روايت كى اور اسے صحيح كہا ہے.
ديكھيں: سنن بيھقى ( 2 / 210 ).
اور دعاء كے ليے سينہ كے برابر ہاتھ اٹھائے اس سے زيادہ نہيں، كيونكہ يہ دعاء ابتھال يعنى مباہلہ والى نہيں كہ انسان اس ميں ہاتھ اٹھانے ميں مبالغہ سے كام لے، بلكہ يہ تو رغبت كى دعاء ہے، اور وہ اپنے ہاتھوں كو اس طرح پھيلائے كہ اس كى ہتھيلياں آسمان كى جانب ہوں...
اور اہل علم كے كلام سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ اپنے ہاتھوں كو ملا كر ركھے جس طرح كہ كوئى شخص دوسرے سے كچھ دينے كا كہہ رہا ہو.
اور بہتر يہ ہے كہ وتر ميں قنوت مسقتل نہ كى جائے، بلكہ بعض اوقات كرے كيونكہ يہ رسول كريم صلى الله عليہ وسلم سے ثابت نہيں، بلكہ آپ صلى الله عليہ وسلم نے حسن بن على رضى الله تعالى عنہما كو قنوت وتر ميں دعاء كرنے كے ليے سكھائى تھى، جيسا كہ آگے بيان ہو گا.
دوم:
اور دعاء قنوت يہ ہے:
حسن بن على رضى الله تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى الله عليہ وسلم نے قنوت وتر ميں كہنے كے ليے كچھ كلمات سكھائے:
" اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ ، فإِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ ، وَإِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ ، وَلا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ ، ولا منجا منك إلا إليك "
اے الله مجھے ہدايت والوں ميں ہدايت نصيب فرما، اور مجھے عافيت دے، اور ميرا كارساز بن، اور تو نے جو مجھے ديا ہے اس ميں بركت عطا فرما، اور جو تو نے فيصلہ كيا ہے اس كے شر سے مجھے محفوظ ركھ، كيونكہ تو ہى فيصلہ كرنے والا ہے تيرے خلاف كوئى فيصلہ نہيں كر سكتا، اور جس كا تو ولى بن جائے اسے كوئى ذليل نہيں كرسكتا، اور جس كے ساتھ تو دشمنى كرے اسے كوئى عزت نہيں دے سكتا، اے ہمارے رب تو بابركت اور بلند ہے، اور تيرے علاوہ كہيں جائے پناہ نہيں "
اور آخرى جملہ " ولا منجا منك الا اليك " ابن مندہ نے " التوحيد" ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ الله تعالى نے اسے حسن قرار ديا ہے، ديكھيں: ارواء الغليل حديث نمبر ( 426 ) اور ( 429 ).
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1425 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 464 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1746 ).
پھر اس دعاء كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھے.
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 14 - 52 ).
سوم:
وتر ميں سلام پھيرنے كے بعد اس كے ليے " سبحان الملك القدوس " تين بار كہنا مستحب ہے، اور تيسرى بار اس كى آواز بلند اور لمبى كرے.
ديكھيں: سنن نسائى حديث نمبر ( 1699 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور دار قطنى كى روايت ميں يہ الفاظ زائد ہيں:
" رب الملائكۃ والرح "
ان دونوں روايتوں كى سند صحيح ہے.
ديكھيں: زاد العماد لابن قيم ( 1 / 337 ).
سوم:
دعائے قنوت نمازِ وتر سے پہلے بیٹھ کر مانگنے کی احادیث مبارکہ میں کوئی دلیل نہیں ہے، احادیث مبارکہ میں نمازِ وتر میں دعائے قنوت کا ذکر ملتا ہے، وتروں سے پہلے نہیں، چنانچہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتروں میں کہنے کیلئے کچھ کلمات سیکھائے : (اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ ۔۔۔الحديث) اس حدیث کو ابو داود (1214) ، ترمذی: (426) ، اور نسائی (1725) نے روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے "صحیح سنن نسائی " میں اسے صحیح کہا ہے۔
ہم آپ کے لئے یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ:
آپ اس امام اچھے انداز میں نصیحت کریں، شاید کے وہ آپکی بات مان لے، اور خود ساختہ اعمال ترک کردے، اور اگر وہ اپنی ڈِگر پر ڈٹا رہے تو آپ اسکے پیچھے نماز اسی صورت میں ترک کر سکتے ہیں کہ آپ کسی ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھیں تو اپنی شکل وصورت اور نماز میں سنت کا پیرو کار ہو، اور اگر ایسا امام نہ ملے تو آپ اسی کے پیچھے نمازیں پڑھیں، اسکی بدعت کا نقصان اُسی کو ہوگا، اور آپکو ساری رات قیام کا ان شاء اللہ اجر مل جائے گا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں کتاب الآذان میں کہا ہے کہ: باب ہے: "فتنہ پرور، اور بدعتی کی امامت کے بارے میں" اور حسن بصری کہتے ہیں کہ: [اسکے پیچھے] نماز پڑھو، اسکی بدعت اُسی پر ہوگی۔
اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ :( نماز آدمی کے تمام اعمال میں سب سے عمدہ چیز ہے جب لوگ عمدہ کام کریں تو تم بھی عمدہ کام کرو، اور جب وہ برا کام کریں تو ان کی برائی سے علیحدہ رہو)انتہی
اس امام نے امام ابو حنیفہ کیلئے تعصب کا اظہار کیا، تو مسلمان پر واجب ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہو، چاہے اس کی زد میں کسی بھی شخص کی مخالفت ہوتی ہو۔
چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واضح ہوگئی تو اب اس کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی بھی شخص کے قول کی وجہ سے سنت کو ترک کردے"
تمام مسلم ائمہ کرام کے اجتہادات ہیں، اور جو اجتہاد میں کامیاب رہے تو اسکے لئے دوہرا اجر ہے، اور اگر اجتہاد میں غلطی کا شکار ہوجائے تو ایک اجر ضرور ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما ن ہے: (جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ خوب تگ ودو کیساتھ فیصلہ کرے، اور فیصلہ صحیح ہوجائے تو ایسے شخص کو دوہرا جر ملے گا، اور اگر فیصلہ کرنے والا غلط فیصلہ کر بیٹھتا ہے تو اسے ایک اجر ملے گا) بخاری: (7652)، مسلم: (1716)
یہی وجہ تھی کہ ائمہ کرام اتباع کتاب و سنت کا زیادہ حرص کیساتھ اہتمام کرتے تھے، چنانچہ انہوں نے ہمیں یہ حکم دیا کہ اگر انکے اجتہادی اقوال سنت سے متصادم ہوں تو ہمارے اقوال کو چھوڑ دیا جائے۔
اور اس قسم کے اقوال آپکو البانی رحمہ اللہ کی کتاب: "صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم " میں ملے گے، لیکن ہم یہاں پر ان میں سے صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے چند اقوال ذکر کرتے ہیں۔
آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"اگر حدیث صحیح ثابت ہو تو وہ میرا مذہب ہے"
اور فرمایا:
"جب تک کوئی ہمارے اقوال کے ماخذ، مصادر [یعنی دلائل]نہیں جانتا اس وقت تک اس کیلئے ہمارے اقوال اپنانا جائز نہیں ہے"
اسی طرح فرمایا:
"جب میں کوئی بات کہوں جو کتاب اللہ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کےسے متصادم ہو تو میری بات کو چھوڑ دینا۔ "
چنانچہ ہمیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ خود ہی قرآن وسنت کی اتباع کا حکم دے رہے ہیں، اور اپنے اجتہاد کیساتھ کہے ہوئے متصادم اقوال کو چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں۔
اس سب کے باوجود ہم آپکی آراء کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیسے ترک کر دیں!؟ اگر یہ متعصب امام ، ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی بات کو سچے دل سے مانتا تو سنت پر عمل کرتا، اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو ترک کردیتا ، جیسے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے خود ہی اس بات کا حکم دیا ہے۔
واللہ اعلم .
۱۔ دعائے قنوت وتر رکوع سے قبل اور رکوع کے بعد دونوں میں سے کسی وقت بھی کی جاسکتی ہے ۔
رکوع سے پہلے قنوت وتر کی دلیل یہ ہے :
عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْأُولَى بِسَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَفِي الثَّانِيَةِ بِقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَيَقْنُتُ قَبْلَ الرُّكُوعِ فَإِذَا فَرَغَ قَالَ عِنْدَ فَرَاغِهِ سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ يُطِيلُ فِي آخِرِهِنَّ
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے تھے ، پہلی رکعت میں سورۃ الاعلى دوسری میں سورۃ الکافرون اور تیسری میں سورۃ الاخلاص کی تلاوت فرماتے اور رکوع سے قبل قنوت کرتے اور جب فارغ ہوتے تو تین مرتبہ یہ دعاء پڑھتے " سبحان الملک القدوس اور آخری لفظ کو لمبا کھینچتے ۔
سنن نسائی کتاب قیام اللیل باب کیف الوتر بثلاث ح ۱۶۹۹
اور رکوع کے بعد قنوت کرنے کی دلیل یہ ہے :
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي وِتْرِي إِذَا رَفَعْتُ رَأْسِي وَلَمْ يَبْقَ إِلا السُّجُودُ: " اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، إِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ، إِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ ".
مجھے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے سکھایا کہ اپنے وتر میں جب میں رکوع سے سر اٹھاؤں اور سجدہ کے سوا اور کچھ باقی نہ بچے تو یہ دعاء پڑھوں اللہم اہدنی فیمن ہدیت ۔۔۔۔۔۔۔ الخ
مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ ۱۲۲
۲۔ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں !
کچھ لوگ اسے قنوت نازلہ پر قیاس کرتے ہیں لیکن یہ قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ یہ قیاس ، قیاس مع الفارق بنتا ہے قیاس صحیح نہیں !!
No comments:
Post a Comment