Sunday, September 24, 2023

موت آتی ہے ( تو) کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے

 

حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ ۝ۙ لَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا ۭ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ  

المومنون  ۹۹۔۱۰۰

’’ یہاں تک کہ ان میں سے کسی ایک  کو موت آتی ہے ( تو) کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے، تاکہ میں نیک عمل کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں، ( اللہ تعالی فرماتا ہے ) ہزگز نہیں، یہ تو محض ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے ، اور ان سب کے پیچھے ایک آڑ ہے اٹھائے جانے والے دن تک ‘‘

حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ ’’ ’’ یہاں تک کہ ان میں سے کسی ایک کوموت آتی ہے ۔

ایک انسان کو موت کیسے آتی ہے ؟

اللہ تعالی فرماتاہے :

اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ ۔۔۔

’’ اللہ روحوں کو قبض کر لیتا ہے عین موت کے وقت، جو نہیں مرے ان کی نیند میں، پھر روک لیتا اس کی روح جس پر موت کا فیصلہ ہوجائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ (سورہ زمر، آیت ۴۲ )

موت کے وقت روح کیسے قبض کی جاتی ہے

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً ۭﱑ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ 61؀ ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ ۭ اَلَا لَهُ الْحُكْمُ ۣ وَهُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ 62       ( سورہ انعام، آیت ۶۱۔۶۲ )

’’ اور وہ ( اللہ ) پوری طرح قادر ہے اپنے بندوں پر، اور بھیجتا ہےتم پر نگراں ( فرشتے )، یہاں تک کہ تم میں کسی ایک موت کا وقت آجاتا ہے تو اسے قبض کرلیتے ہیں ہمارے بھیجے ہوئے اور وہ کوئی غلطی نہیں کرتے ۔ پھر ( یہ روح ) پلٹائے جاتی ہیں اللہ کی طرف جو انکا حقیقی مالک ہے، سن لو کہ حکم اسی کاہے وہ جلد حساب لینے والا ہے‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب کسی مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالیٰ تجھ پر اور اس جسم پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے پھر اس روح کو اللہ عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہے پھر اللہ فرماتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لےجاو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کافر کی روح جب نکلتی ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ اسے آخری وقت کے لئےلے جاو، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اپنی ناک مبارک پر اس طرح لگالی تھی (کافر کی روح کی بدبو ظاہر کرنے کے لییے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا)‘‘۔

( مسلم۔ کتاب الجنۃ و صفتہ،باب عرض مقعد المیت)

’’ کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کی روح ایک پرندےمیں جنت کے درخت سےوابستہ رہتی ہے یہاں تک کہ اللہ جل جلالہ پھر اس کو لوٹا دے گا اس کے بدن کی طرف جس دن اس کو اٹھائے گا‘‘ ۔

( موطا امام مالک ، کتاب الجنائز، باب:  جامع لاجنائز)

’’ جب فرشتے اپنے آپ ظلم کرنے والوں کی روحیں قبض کرتے ہیں ، تو وہ فورا سیدھے ہو جاتے ہیں ( کہتے ہیں ) ہم کوئی برائی کا کام تو نہیں کررہے تھے، ( فرشتے جواب دیتے ) ہاں ! اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے تھے۔ پس داخل ہو جاو جہنم کے دروازوں میں جہاں تم کو ہمیشہ رہنا ہے‘‘۔ ( سورہ نحل، آیت :۲۸۔۲۹ )

’’ جب فرشتےنیک لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو، داخل ہو جاو جنت میں ان اعمال کی وجہ سے جو تم کرتے تھے ‘‘۔ ( سورہ نحل، آیت :۳۲ )

پیش کردہ قرآنی آیات و احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب انسان کی موت کا وقت آتا ہے تو اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی روح قبض کرکے اللہ کے پاس لے جاتے ہیں، اللہ کا حکم ہوتا ہے کہ اسے آخری وقت یعنی قیامت تک لئے لے جاوٗ، ان روحوں کو ان کے اعمال کے لحاظ سے جنت یا جہنم میں پہنچا دیا جاتا ہے جہاں وہ قیامت تک رہیں گے۔ قیامت کے دن انہیں واپس انکے ان دنیاوی جسموں میں ڈال کر دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ جب روح جسم سے نکل جاتی ہے تو اسےموت آجاتی ہے اور موت کا یہ دور قیامت تک چلے گا۔

قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْن۝ۙلَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا 

( تو) کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے، تاکہ میں نیک عمل کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں، 

قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ ( تو) کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے۔

اس سے قبل ’’ موت ‘‘ کی تشریح میں اس بات کی وضاحت ہو چکی ہے کہ موت کے بعد اس کی روح اللہ تعالی کے پاس لے جائی جاتی ہے اور قیامت کا یہ دور اب اسے وہاں ہی گزارنا ہے، وہاں جا کر کیا ہوتا ہے؟

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

انس بن مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندوں میں سے جو کوئی مرتا ہے اللہ کے پاس اس کے لئے کچھ بھلائی ہےتو وہ نہیں چاہتا کہ دنیا کی طرف لوٹ آئے چاہے اسے دنیا کی ہر چیز دے دی جائے۔ مگر شہید بوجہ اس کے کہ وہ شہادت کی فضیلت دیکھتا ہے لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ دنیا کی طرف واپس لوٹ آئے اور دوبارہ پھر قتل کیا جائے۔‘‘

( بخاری، کتاب :جہاد و سیرت، باب بڑی آنکھوں والی حوروں کا بیان )

انس بن مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جنت میں داخل ہوتا ہے، وہ اس بات کو نہیں چاہتا، کہ دنیا کی طرف پھر لوٹ جائے، چاہے دنیا میں اسے دنیا بھر کی چیزیں مل جائیں، البتہ شہید یہ چاہتا ہے کہ وہ ہر بار دنیا کی طرف لوٹا یا جاتا رہے، تاکہ وہ دس مرتبہ قتل کیا جائے، کیونکہ وہ قتل فی سبیل اللہ کی فضیلت دیکھ چکا ہے۔‘‘

( بخاری، کتاب جہاد و سیر ، باب : کتاب: جہاد اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،باب

شہید کا دنیا میں دوبارہ جانے کی تمنا کرنے کا بیان)

ہم نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیئے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جسموںمیں ہیں ،ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ جنت میں جہاں چاہیں پھرتی رہتی ہیں پھر انہی قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں۔ ان کا رب ان کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے پوچھا کہ کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے ، انہوں نےعرض کیا ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب انہوں نے دیکھا کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا، تو انہوں نے عرض کیا : اے رب ،ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ نے دیکھا کہ انہیں اب کسی چیز کی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا ۔‘‘

( عن مسروق ، إسلم ، کتاب الامارۃ ، باب: باب بيان أن أرواح الشهداء في الجنة، وأنهم أحياء عند ربهم يرزقون)

جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کی میری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر کیا بات ہے؟۔ میں تمہیں شکستہ حال کیوں دیکھ رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد شہید ہوگئے اور قرض و عیال چھوڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس چیز کی خوشخبری نہ سناؤں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ تمہارے والد سے ملاقات کی عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کے علاوہ ہر شخص سے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی لیکن تمہارے والد کو زندہ کر کے ان سے بالمشافہ گفتگو کی اور فرمایا اے میرے بندے تمنا کر۔ تو جس چیز کی تمنا کرے گا میں تجھے عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ مجھے دوبارہ زندہ کر دے تاکہ میں دوبارہ تیری راہ میں قتل ہو جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری طرف سےفیصلہ ہو چکا کہ یہ سب دنیا میں واپس نہیں بھیجےجائیں گے۔‘‘ 

( عن جابر ؓ، ترمذی، ابواب  تفسیر القرآن ، باب:  و من سورۃ آل عمران ، حدیث حسن)


قرآن مجید کی زیر نظر سورہ مومنون کی آیت نمبر ۹۹۔۱۰۰ میں اس بات کا ذکر ہے کہ فاجرفاسق کی روحیں اللہ تعالی کے پاس جانے کے بعد دنیا میں واپس بھیجے جانے کی درخواست کرتی ہیں۔ مندرجہ بالا احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شہید بھی اسی بات کی درخواست کرتا ہے کیونکہ اس نے شہادت کی فضیلت دیکھ لی ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے تاکہ بار بار اس فضیلیت کو پھر پالے۔ اس کے برعکس دوسرے مومن جنہیں جنت کی نعمتیں حاصل ہو چکی ہوتی ہیں وہ دوبارہ اس دنیا میں بھیجے جانے کی تمنا نہیں کرتے چاہے انہیں ساری دنیا اور اس کی نعمتیں ہی دے دی جائیں، کیونکہ انہیں یقین ہو چکا ہوتا ہے کہ جنت کی نعمتوں کے سامنے ساری دنیا کی کوئی اہمیت نہیں۔

لَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا

’’ تاکہ نیک عمل کرے ‘‘ : اس سےقبل قرآن کی سورہ نحل کی آیت پیش کی جاچکی ہے ( اور بھی آیات اس بارے میں موجود ہیں) کہ کافروں کی روحوں کو جہنم میں داخل کردیا جاتا ہے۔ اب جب وہ اس عذاب کو دیکھ لیتے ہیں اور انہیں احساس ہو جاتا ہے کہ آخر ہمارا یہ انجام کیوں ہوا، ہم نے دنیا میں زندگی کو اس طرح نہیں بسر کیا جس طرح ہمارے رب کو مطلوب تھا، صالح اعمال کے بجائے اللہ کی نافرمانی کی اور اپنی زندگی کو بداعمالیوں سے پر کردیا۔لہذا اب وہ چاہتے ہیں کہ انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے اور دوبارہ بھیجے جانے پر وہ بد اعمالیوں کے بجائے نیک اعمال کریں تاکہ اس عذاب سے بچ سکیں۔

فِيْمَا تَرَكْتُ ’’ جسے میں چھوڑ آیا ہوں ‘‘


انسان کی یہ روح کس چھوڑ کر گئی تھی اور اب کہاں واپس پلٹانے کی درخواست کر رہی ہے:

اللہ تعالی فرماتا ہے :


’’اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور کہے کہ مجھ پر بھی وحی نازل ہوتی ہے، حالانکہ اس پر کوئی چیز نازل نہیں ہوئی ، یا وہ جو یہ کہے کہ جیسا اللہ نے نازل کیا ہے ایسا میں بھی لاتا ہوں،کاش تم دیکھو ایسے ظالموں کو موت کی حالت میں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہتے ہیں کہ نکالو اپنی روحوں کو ، آج کے دن تمہیں بدترین عذاب سے نوازا جائے گا جیسا کہ تم اللہ پر غیر حق کہا کرتےاور اللہ کی آیات سے استکبار کیا کرتے تھے۔ ( قبض روح کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے ) اور یقینا تم پہنچ گئے ہمارے پاس جیسا کہ ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا ،اور تم چھوڑ آئے ہو اپنی پیٹھ کے پیچھے جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا تھا، اور ہم نہیں دیکھتے تمہارے ساتھی تمہارے سفارشیوں کو جن کے متعلق تمہارا گمان تھا کہ تھا کہ وہ تمہارے شریک ہیں، یقینا تمہارے آپس کے سارے رابطے ختم ہو گئے اور تم سے کھو گئے وہ سب جنکا تمہیں گمان تھا ۔‘‘ ( سورہ انعام : ۹۳۔۹۴ )


وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِكُمْ’’اور تم چھوڑ آئے ہو اپنی پیٹھ کے پیچھے جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا تھا،‘‘


یعنی انسان کی روح ہر وہ چیز چھوڑ کر چلی جاتی ہے جو کچھ اللہ تعالی نے اس عطا کیا ہوتا ہے۔ دنیا میں اللہ تعالی نے سب سے پہلے اسے ایک جسم عطا فرمایا، پھر بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں، سانس کے لئے ہوا، پینے کے لئے پانی، کھانے کے لئے اناج ۔  ۔ ۔ ۔ 

لیکن جب اس کی موت آتی ہے تو اس روح کو عطا کردہ تمام تر چیزیں وہ روح چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ سورہ مومنون کی زیر نظر اس آیت میں بیان کیا گیاہے اللہ سے یہی درخواست کرتے ہیں کہ اے اللہ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں ڈال دیا جائے اور دوبارہ شیادت پانے کے لئے ہمیں واپس دنیا میں بھیج دیا جائے۔)


یہاں اللہ فرماتا ہے كَلَّا ۭ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا ۭ ہزگز نہیں، یہ تو محض ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے ۔ یعنی بس یہ ایک بے تکی سی بات ہے کہ جو وہ کہہ رہا ہے ، كَلَّا ہرگز نہیں، یعنی یہ ایک ناممکن بات ہے، یہ اللہ کا قانون نہیں کہ وہ انہیں واپس بھیج دے۔ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ اور ان سب کے پیچھے ایک آڑ ہے اٹھائے جانے والے دن تک ‘‘


اوپر اس آیت کے پہلے حصوں کی وضاحت قرآن و حدیث کے تحت کردی گئی ہے کہ مرنے والے کو روح موت کے وقت فرشتے قبض کرکے اللہ تعالی کے پاس لے جاتے ہیں اور پھر حکم ہوتا ہے کہ اسے آخری وقت تک کے لئے لے جاو، قرآن و حدیث سے اس بات کی مزید وضاحت کردیتی ہیں کہ اسے اس کے مراتب کے لحاظ سے جنت یاجہنم میں داخل کردیا جاتا ہے، مومن کو جنت کی نعمتیں ملتی ہیں تو دینا کی طرف واپس آنے کا سوچتا بھی نہیں البتہ شہید ، شہادت کی فضیلت کی وجہ سے دوبارہ دنیا میں بھیجے جانے کی درخواست کرتا ہے کہ ان کی روحوں کو واپس ان کے جسموں میں لوٹا دیا جائے تاکہ وہ دنیا میں دوبارہ جہاد کر کے شہادت کی اس فضیلت کو دوبارہ پا لیں۔ اسی طرح اسی آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ کافر و فاسق کی روحیں بھی دوبارہ اس دنیا میں واپس بھیجے جانے کی درخواست کرتی ہیں جس کے جواب میں اللہ تعالی نے فرما دیا کہ یہ محض ایک بات کہہ رہا ہے، ہر گز نہیں، وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ ’’اور ان سب کے پیچھے ایک آڑ ہے اٹھائے جانے والے دن تک ‘‘۔


بتایا گیا کہ ان سب مرنے والوں، یعنی دنیا میں آج تک جتنے بھی لوگ مر چکے ہیں، ان سب کی روحوں کے پیچھے صرف ایک آڑ ہے۔ یعنی’’ برزخ ‘‘ صرف ایک ہے اور ان کے پیچھے ہے، گویا اب جب کہ یہ روحیں جو اللہ تعالی کے پاس پہنچ چکی ہیں اب یہ دنیا میں واپس جانا چاہیں تو ان کی پشت پر ایک آڑ ہے۔ یعنی اُس عالم سےواپسی پر ایک ایسی روک ہے کہ جو انہیں اس دنیا میں واپس نہیں جانے دے گی۔


’’ ان سب مرنے والوں کے پیچھے ایک آڑ ہے ‘‘: آج عقیدہ دیا گیا ہے کہ کسی انسان کے مرتے ہی ہمارے اور اس مردہ جسم کے درمیان برزخ آ جاتی ہے۔ پورے قرآن و حدیث کا مطالعہ کرلیں کہیں بھی آپ کو یہ عقیدہ نہیں مل سکے گا کہ برزخ ہمارے اور اس مردہ جسم کے درمیان ہے۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی انسان کی وفات کے وقت ب’’ کسی برزخ ‘‘ کا ذکر نہیں، فرشتے روح قبض کر کے اللہ تعالی کے پاس لے جاتے ہیں ’’ برزخ ‘‘ کا کوئی ذکر نہیں، اللہ کے حکم سے انہیں جنت یا جہنم میں داخل کیا جاتا ہےاسوقت بھی کسی برزخ کا ذکر نہیں ۔ جہنم میں داخلے کے بعد کافر و فاسق کو اپنا انجام دکھائی دے جاتا ہے اور وہ روح وہاں سے اللہ سے اس دنیا میں بھیجے جانے کی درخواست کرتی ہے کہ مجھے اس جگہ لوٹا دے جسے میں چھوڑ آیا ہوں تو اس وقت اللہ فرماتا ہے کہ ہرگز نہیں ان کے پیچھے ایک آڑ ہے قیامت کے دن تک ۔


پھر یہ بھی عقیدہ پھیلایا گیا کہ اب جب یہ مردہ اپنی اس زمینی قبر میں منتقل کردیا جاتا ہے تو اس کی یہ قبر اس کی برزخ بن جاتی ہے۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی برزخ کو کوئی مقام نہیں بتایا گیا ، بلکہ ایک ایسی آڑ کہا گیا ہے جو دو چیزوں کو ملنے نہیں دے۔ قرآن و حدیث سے یہی ثابت ہے کہ انسان کی روح جنت یا جہنم میں رہتی ہے، اور یہ سب کچھ اس آڑ کے پیچھے ہے جس اللہ تعالی نے قیامت کےدن تک کے لئے قائم کرنے کا اعلان فرمایا ہے تو اس حوالے سے اسے اصطلاحاْ ’’ عالم برزخ ‘‘ کہا جاتا ہے یعنی وہ عالم جہاں انسان کی روح دنیا سے جانے کے بعد قیامت تک رہتی ہے۔ 


اسکے بعد آپ یہ دیکھیں کہ یہ خود ساختہ عقیدہ کسی بھی طرح قابل عمل نہیں، الف کراچی میں مرا اس کی برزخ کراچی میں ہوئی، ’’ب‘‘ امریکہ میں مرا اس کی برزخ امریکہ میں ہوئی، ’’ت‘‘ سمندر میں ڈوب کر مرا اس عقیدے کے مطابق اس کی برزخ سمندر بنا، کسی کو شیر کھا گیا اس کی برزخ شیر کا پیٹ بنا، شیر نے اس کھا کر فضلہ بنا کر نکال دیا اب ایک نئی برذخ بن گئی۔ قرآن و حدیث کے بیانات کیا ایسے کسی عقیدے کو بیان کرتے ہیں ؟ سارے مر جانے والوں کی لئے صرف ایک برذخ بیان کی گئی ہے ۔


چنانچہ قرآن و حدیث کے دئیے ہوئے عقیدے کی روشنی میں یہ بات مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ ’’ برزخ ‘‘ انسان کی روح اور اس کے درمیان ہے جو وہ چھوڑ کر گئی تھی، یعنی یہ دنیا، یہ جسم ، یہاں اسے والی ساری نعمتیں۔ یہ برزخ قیامت کے دن تک کے لئے ہے، قیامت کے دن یہ برزخ ختم ہو جائے گی تو یہ روح اس جسم میں واپس آجائے گی جیسا کہ قرآن و حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے کہ ان سڑے گلے مٹی کے جسموں کی دوبارہ تخلیق کی جائے گی اور انہیں زندہ کرکے اٹھا دیا جائے گا۔ قرآ ن کا یہی فرمان ہے کہ موت سے ہمکنار ہونے والا قیامت تک کے لئے مردہ ہے اس میں زندگی کی کوئی رمق نہیں۔

No comments:

Post a Comment