Sunday, August 7, 2022

اچھی اور بری صحبت کے أثرات

اچھی اور بری صحبت کے اثرات

لحمدللّٰہ رب العالمین،والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد ﷺ،وعلی آلہ وصحبہ ومن دعا بدعوتہ الی یوم الدین۔أما بعد

اچھا دوست
وہ ہے جو اللہ کا مطیع وفرمانبردارہو ،اس کے اوامر کی پابندی کرنیوالا ،منہیات سے دور رہنے والا،فرائض کو ادا کرنے والا،سنن کی پابندی کرنے والا،حدود اللہ کا لحاظ رکھنے والا،اچھے اور اعلی اخلاق سے پیش آنے والا،برے اخلاق سے بچنے والا،صلہ رحمی کرنے والا،والدین سے حسن سلوک کرنیوالا ، ہمسائے سے احسان کرنے والا،بردبار عاجز ،لوگوں کے کام آنے والا اورلوگوںکواذیت دینے سے دور رہنے والا ہو۔
برا دوست: 
وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کا باغی ہو،فرائض میں کوتاہی کرنے والا،منہیات میں جرأت کرنے والا،حدود اللہ کو پامال کرنے والا،برے اخلاق سے پیش آنے والا،قطع رحمی کرنے والا،والدین کا نافرمان،ہمسائے سے برائی کرنے والا،جلد اور بہت زیادہ غصہ کرنے والا،متکبراور لوگوں کو اذیت دینے والا ہو۔گویا کہ عقیدہ عمل اور سلوک کرنے میں دین سے منحرف ہو۔
اچھی صحبت کے اثرات:بے شک انسانی زندگی پر اچھی صحبت کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ اچھا دوست آپ کو خیر اور بھلائی کی جانب راہنمائی کرے گا۔اور آپ کو دین ودنیا کی بہتری کا مشورہ دے گا۔اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری پر راغب کرے گا جبکہ آپ کے عیوب کی بھی نشاندہی کرتا رہے گا۔برے اخلاق چھوڑ کر اچھے اخلاق اپنانے کی دعوت دے گا۔یا کم از کم آپ اس کی نیکی کو دیکھ کر خود نیکی کرنے کی کوشش کریں گے۔آپ کی موجوگی یا عدم موجودگی میں آپ کی خیر خواہی کرے گا اور آپ کی زندگی یا موت کے بعدآپ کے لئے دعا مغفرت کرے گا۔
بری صحبت کے اثرات:جس طرح اچھی صحبت سے انسانی زندگی پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی طرح بری صحبت اختیار کرنے سے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کیونکہ برے دوست کے تمام احوال ونقائص میں آپ اس کے برابر کے شریک ہیں۔اور سب سے برا اثر جو انسان پر مرتب ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یا تو برا دوست آپ کو بھی برائی میں شرکت کی دعوت دے گاجو آپ کے دین و دنیا دونوں کے لئے مضر ہے یا پھر برائی پر آپ کی حوصلہ افزائی کرے گا۔اور آپ کو والدین کی نافرمانی اورقطع رحمی پر ابھارے گا۔آپ کے رازوں کو مخفی رکھے گا تاکہ آپ اپنے گناہوں کو جاری رکھیں۔نیز آپ کی عدم موجودگی میںآپ کے رازوں کو افشاء کردینا آپ کے لئے ذلت ورسوائی کا سبب ہو گا۔ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے اور اپنے دوستوں کے دین پر ہوتا ہے جیسا کہ کسی شاعر کا کلام ہے:
عن المرء لا تسئل وسل عن قرینہ فکل قرین بالمقارن یقتدی
کسی بھی آدمی کے بارے میں مت پوچھ! بلکہ اس کے دوست کے متعلق پوچھ۔کیونکہ دوست اپنے دوستوں کے پیروکار ہوتے ہیں۔
حضرت ابو موسی اشعری سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اچھے دوست اور برے دوست کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا:
((مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کحامل المسک ونافخ الکیر ،فحامل المسک اما أن یحذیک ،واما أن تبتاع منہ،واما أن تجد منہ ریحا طیبۃ،ونافخ الکیر اما أن یحرق ثیابک،واما أن تجد منہ ریحاخبیثۃ))[متفق علیہ]
’’اچھے دوست اور برے دوست کی مثال کستوری اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی مانند ہے،کستوری اٹھانے والا یا تو آپ کو ہدیہ میں دے دیگایا آپ اس سے خرید لیں گے یا کم از کم اچھی خوشبو تو پائیں گے،جبکہ بھٹی جھونکنے والا آپ کے کپڑوں کو جلا دے گا یا کم از کم آپ اس سے بدبوپائیں گے۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے اس مثال کے ذریعہ معقول کو محسوس کے قریب کر دیا ہے۔جس سے صحبت کے اثرات کوسمجھنے میں مدد ملے گی۔کہ جس طرح کستوری والے کے پاس بیٹھنے سے فائدہ ہی فائدہ ہے اسی طرح اچھی صحبت اختیار کرنے سے انسان خیر اور بھلائی میں رہتا ہے جبکہ بھٹی جھونکنے والے پاس بیٹھنے سے نقصان ہی نقصان ہے اسی بری صحبت اختیار کرنے سے انسان خسارہ میں ہی رہتا ہے۔
نیک لوگوں کے ساتھ محبت اور ان کی صحبت اختیار کرنے کے فوائد
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے ان کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے محبت کرنے کی فضیلت میں کتاب وسنت میں بہت ساری نصوص وارد ہیں۔جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((لاتصاحب الا مؤمناولا یأکل طعامک الا تقی)) [ابوداؤد،ترمذی]
’’صرف مومن شخص کی صحبت اختیار کر،اور تیرا کھانا صرف متقی شخص کھائے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((الرجل علی دین خلیلہ فلینظر أحدکم من یخالل))[ابوداؤد،ترمذی]
’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے،پس چاہئیے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے دوست کو دیکھے۔‘‘ 
حضرت ابوموسی أشعری روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((المرء مع من أحب))
’’آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ جو شخص کسی قوم کے ساتھ محبت کرتا ہے اسے اس قوم کے ساتھ ملحق کیوں کر دیا جاتا ہے؟تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:((المرء مع من أحب))’’آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ دین دار عورت سے شادی کی جائے تاکہ وہ تمہارے دین میں تمہاری مدد گار ثابت ہو سکے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((تنکح المرأۃ لأربع لمالھا ولحسبھا ولجمالھا ولدینھا فاظفر بذات الدین تربت یداک)) [متفق علیہ]
’’چار وجوہ سے عورت کے ساتھ نکاح کیا جاتا ہے۔اس کے مال کی وجہ سے،اس کے حسب ونسب کی وجہ سے،اس کے جمال کی وجہ سے ،اور اس کے دین کی وجہ سے۔دین والی کو ترجیح دوتیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں ان سات افراد کا تذکرہ ہے جن کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جن میں سے دو افرادوہ بھی ہیں:
((رجلان تحابا فی اللہ اجتمعا علیہ وتفرقا علیہ))
’’جو فقط اللہ کے لئے محبت کرتے ہیں اسی محبت پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر ہی علیحدہ ہوتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺکو نیک اور اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کی صحبت پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ ان کو دھتکارنے سے منع کیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ

No comments:

Post a Comment