Sunday, October 4, 2015

ہم ان کی بدیوں کو نیکیوں میں بدل دیتے ہیں!

By HAfsa Fatima Syed 

حفصہ فاطمہ سید 

 مگر جو لوگ توبہ کر لیں، ایمان لائیں اور نیک کام کریں۔ ایسے لوگوں کے گناہوں کو الله  نیکیوں سے بدل دیتا ہے اور الله  بہت بخشنے والا اور بہت مہربانی کرنے والا ہے۔

سورۃ الفرقان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صـٰلِحًا فَأُولـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّـٔاتِهِم حَسَنـٰتٍ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٧٠﴾... سورة الفرقان

"مگر جو لوگ توبہ کر لیں، ایمان لائیں اور نیک کام کریں۔ ایسے لوگوں کے گناہوں کو الله  نیکیوں سے بدل دیتا ہے اور الله  بہت بخشنے والا اور بہت مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘

گناہوں یا بدیوں کو نیکیوں سے بدل دینے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی حالت بدل دیتا ہے۔ تفسیر  میں مذکورہ آیت کی تفسیر میں عبداللہ بن عباس رضی الله  عنہ سے مروی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے گناہ کے کام کیے تھے۔ اسلام میں آنے کے بعد نیکیاں کیں۔ الله  تعالیٰ نے ان گناہوں کے بدلے نیکیوں کی توفیق عطا کی۔

 کہ اس کا تعلق دنیوی زندگی سے ہے۔ انسان کی بری خصلت کو الله  تعالیٰ اپنی مہربانی سے نیک عادت سے بدل دیتا ہے۔

  بتوں کی پرستش کے بدلے الله تعالیٰ کی عبادت کی توفیق ملی، مومنوں سے لڑنے کی بجائے کافروں سے جہاد کرنے لگے۔ مشرکہ عورتوں کی بجائے مومنہ عورتوں سے نکاح کیے۔

 گناہ کے بدلے ثواب کے کام کرنے لگے۔ شرک کے بدلے توحید و اخلاص ملا۔ بدکاری کے بدلے پاکدامنی حاصل ہوئی۔ کفر کے بدلے اسلام ملا۔

گناہوں کے نیکیوں میں بدل جانے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ نیکیوں سے گناہ مٹ جاتے ہیں۔ اس پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وہ حدیث بھی دلیل ہے۔ جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

’’میں اس آدمی کو جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا اور سب سے آخر میں جہنم سے نکلنے والا ہو گا۔ یہ وہ شخص ہو گا کہ قیامت کے دن اس پر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کئے جائیں گے۔ بڑے گناہ ایک طرف رکھ دیے جائیں گے۔ اس سے کہا جائے گا کہ تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کیا تھا، وہ ہاں میں جواب دے گا۔ انکار کی ہمت نہ ہو گی۔ علاوہ ازیں وہ اس بات سے بھی ڈر رہا ہو گا کہ ابھی تو اس کے بڑے گناہ بھی پیش کیے جائیں گے۔ اتنے میں اسے کہا جائے گا کہ جا تیرے لیے ہر برائی کے بدلے ایک نیکی ہے۔ الله  کی یہ مہربانی دیکھ کر وہ کہے گا کہ ابھی تو میرے بہت سے اعمال ایسے ہیں کہ میں انہیں یہاں نہیں دیکھ رہا، یہ بیان کر کے الله  کے رسول صلی الله علیہ وسلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ صلی الله  علیہ وسلم کے دانت ظاہر ہو گئے۔‘‘ (مسلم، الایمان، ادنی اھل اجنۃ منزلۃ فیھا، ح: 190)

ترمذی کی ایک حدیث میں نبی صلی الله  علیہ وسلم نے اسی طرح کا ایک اصول بیان کرتے ہوئے ابوذر رضی الله عنہ سے فرمایا:

(اتبع السيئة الحسنة تمحها)(البر والصلة، ما جاء فی معاشرۃ الناس، ح: 1987)

’’برائی کے بعد نیکی کرو وہ اسے مٹا دے گی۔‘‘

یعنی اگر گناہ ہو جائے تو اس کے بعد نیکی کیا کرو، نیکی گناہ کو ختم کر دے گی۔ اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے:

﴿ إِنَّ الحَسَنـٰتِ يُذهِبنَ السَّيِّـٔاتِ...﴿١١٤﴾... سورة هود

’’بےشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔‘‘

اس اصول کو کئی ایک احادیث میں وضاحت سے بھی بیان کیا گیا ہے۔ نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنھم سے پوچھا:

"بتاؤ! اگر تم میں سے کسی ایک کے دروازے پر بڑی نہر ہو، وہ روزانہ اس میں پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو، کیا اس کے جسم پر میل کچیل باقی رہے گی؟ صحابہ رضی الله عنھم نے عرض کیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح پانچ نمازیں ہیں، ان کے ذریعے سے الله گناہوں اور خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔"

(بخاري، المواقیت، الصلوات الخمس کفارة، ح: 528)، مسلم، المساجد، المشی الی الصلاۃ ۔۔ ح: 667)

ایک اور حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

(الصلوات الخمس والجمعة الى الجمعة و رمضان الى رمضان مكفرات ما بينهن اذا اجتنب الكبائر)(مسلم، الطھارة، الصلوات الخمس والجمعةالی الجمعة، ح:)

’’پانچوں نمازیں، جمعہ اگلے جمعہ تک اور رمضان آئندہ رمضان تک، ان کے مابین ہونے والے گناہوں کو دُور کرنے والے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔‘‘

No comments:

Post a Comment