Tuesday, July 1, 2014

شخصیت پرستی کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں

شخصیت پرستی بنیادی طور پر ایک منفی طرز عمل ہے۔جس میں انسان حق و انصاف اور عقل و فکر کے تمام پہلوؤں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی زندگی کے تمام گوشوں میں فیصلہ کسی شخصیت کی تقلید اور اس کی اندھی پیروی کی بنیاد پر کرتا ہے۔زندگی کے کسی بھی معاملہ کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے، آنکھوں پر پٹی چڑھا کر کسی کی پیروی کرناہی شخصیت پرستی کہلاتا ہے۔ دینی مسائل میں قرآن و سنت کو چھوڑ کر ’شخصیتوں‘ کے اقوال کو اختیار کرنا اور ان کو قرآن سنت کی میزان پر نہ تولنا انسان کے اعمال کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔

جب لوگ شخصیت پرستی میں مبتلا ہو جاتے ہیںتو وہ سوچنے اور سمجھنے کی اپنی صلاحیتوں کو اس  کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ پھر وہ ویسا ہی سوچتے ہیں اور ویسا ہی دیکھتے ہیںجیسا کہ وہ شخص ان کو دکھاتا ہے۔ شخصیت پرستی کے ایک معنیٰ یہ بھی ہیں کہ ہم ایک طرح سے دوسروں کو خودسے بہتر قرار دیتے ہیںاور اپنی کام یابیوں اور ناکامیوں کو دوسروں کے ساتھ مشروط کر لیتے ہیں۔ ہم اپنی سوچ اور سمجھ کو  بالائے طاق رکھ کر دوسروں کی مرضی و احکام کے مطابق چلتے ہیں۔

شخصیت پرستی حقیقت میں ’شرک‘ کی ابتدائی سیڑھی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی ابتدا شخصیت پرستی سے ہی ہوئی ہے۔ گزشتہ اقوام میں جب کوئی نبی یا کوئی معزز شخص دنیا سے کوچ کر جاتا تھا تو ان کے پیروکار اس کی یاد میں تصویریں اور مجسمے بناتے تھے اور دھیرے دھیرے ان کی تعلیمات کو بھلا کر صرف انہی مجسموں کی پرستش کرنے لگے تھے۔ قرآن مجید میں سورۂ نوح میں قوم نوح کے جن معبودوں کا تذکرہ آیا ہے : یعود، سواع، یغوث، یعوق، نسر وغیرہ، صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ یہ ان کی قوم کے اولیاء و صالحین اور بزرگوں کے نام ہیں۔ ان کی وفات کے بعد شیطان نے انھیں بہکا کر ان کی پرستش میں مبتلا کر دیا تھا۔ (صحیح بخاری:(

شخصیت پرستی کے اسباب

شخصیت پرستی کی ایک بڑی وجہ ’ غلو‘ ہے۔ اسے اسلام میں سخت ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔کسی شخص کی اتنی تعریف کرنا یا اس کی اتنی مذمت کرنا جس کی وہ مستحق نہ ہو، غلو کہلاتا ہے۔ مثلاً نصرانیوں نے حضرت عیسیؑ کے معاملے میں اتنا غلو کیا کہ انھیں اللہ کا بیٹا قرار دے دیا۔ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لاَ تَغْلُواْ فِیْ دِیْنِکُمْ وَلاَ تَقُولُواْ عَلَی اللّہِ إِلاَّ الْحَقِّ إِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُولُ اللّہ(النساء:۱۷۱)

’’ اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جائو اور اللہ پر حق کے بجز کچھ نہ کہو۔ مسیح ابن مریم تو اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں‘‘

ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لاَ تَغْلُواْ فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعُواْ أَہْوَاء  قَوْمٍ قَدْ ضَلُّواْ مِن قَبْلُ وَأَضَلُّواْ کَثِیْراً وَضَلُّواْ عَن سَوَاء السَّبِیْل(المائدۃ:۷۷)

’’ آپ کہہ دیجیے، اے اہل کتاب! اپنے دین میں نا حق غلو اور زیادتی نہ کرو اور ان لوگوں کی نفسانی خواہش کی اتباع نہ کرو ، جو پہلے سے بہک چکے ہیں اور پہلے سے بہتوں کو بہکا چکے ہیں اور سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں‘‘۔

شخصیت پرستی کی ایک دوسری بڑی وجہ دین سے عدم واقفیت ہے ۔ ہمارے سماج میں، خاص طور پر مسلمانوں میں دین کی بہت سرسری معلوما ت ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ ممکن نہیں ہے،چنانچہ وہ کسی شخصیت کو اپنا مقتدیٰ بنا لیتے ہیں۔ لیکن عموماً ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس شخصیت سے استفادہ کے بہ جائے اس کی اندھی تقلید شروع کر دیتے ہیں اور پھر یہ تقلید دھیرے دھیرے دین کی تقلید کے بہ جائے شخصیت کی تقلید اور دین تبلیغ کے بجائے شخصیت اور اس کی ترویج و اشاعت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

اعتدال کی ضرورت

اللہ کے رسول ﷺ کی حیات طیبہ کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں ہمیں یہ بات صاف طور پر دیکھنے کو ملتی ہے کہ آپؐ نے دین کے معاملے میں ہمیشہ اعتدال کی راہ کو اختیار کیا اور اپنے صحابہؓ کو بھی افراط و تفریط اور دین میں غلو کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا بیان ہے کہ انھوں نے حضرت عمر فاروق ؓ کو منبر پر کہتے ہوئے سنا کہ میں نے نبیؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

’’ تم لوگ میری تعریف میں اس طرح مبالغہ نہ کرنا جس طرح نصرانیوں نے عیسیؑ کے ساتھ کیا، میں فقط اللہ کا بندہ ہوں، لہٰذا مجھے اللہ بندہ اور اس کا رسول کہو‘‘۔ (صحیح بخاری)

اسلام ایک معتدل دین ہے اور اس کے تمام گوشوں میں یہ وصف بہت ابھرا ہوا نظر آتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً (البقرۃ:۱۴۲)

’اسی طرح ہم نے تم کو متوسط اور معتدل امت بنایا‘‘۔

اسلام نہ توکسی شخصیت کی اندھی تقلید کو پسند کرتا ہے جہاں سے شرک کی ابتدا ہوتی ہے اور نہ کسی کی پیروی کو سرے سے خارج کرتا ہے۔بلکہ وہ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ایک ’اعتدال‘ کی راہ متعین کرتا ہے، تاکہ وہ راہ راست سے نہ بھٹکے۔مثلاً وہ انفاق کے معاملے میں اعتدال کی روش کو یوں بیان کرتا ہے ۔

وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَۃً إِلَی عُنُقِکَ وَلاَ تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَّحْسُورا(الاسراء: ۲۹) ’’نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دوکہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ‘‘۔

اسلام کا یہ امتیاز ی وصف اس کے تمام گوشوں میں پایا جاتا ہے۔ خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہویا عبادات سے، اخلاقیات سے ہویا سماجیات سے، معاشیات سے ہو یا کسی اور شعبۂ حیات سے، ہر جگہ اعتدال و توازن نمایاں ہے۔

گزشتہ قوموں کی مثال

گزشتہ قومیں اعتدال کا دامن اپنے ہاتھوں میں نہ تھامے رکھ سکیں۔ عقائد جن پر ساری چیزوں کا انحصار ہوتا ہے، ان میں افراط و تفریط کا شکار ہو گئے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کا تو حال یہ تھا کہ وہ اپنے علماء کے احترام میں اس قدر غلو کرنے لگے تھے کہ انھیں خدائی درجہ دے بیٹھے۔ قرآن مجید نے ان کی اس بے راہ روی کو اس طرح بیان کیا ہے:

اتَّخَذُواْ أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہ(التوبۃ:۳۰)

’’ انھوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا‘‘۔

تقلید کے تعلق سے عوام ہی نہیں بلکہ ایک بڑی تعداد خواص کی بھی ایسی ہے جو غلو میں مبتلا ہے۔ ایسے لوگ اپنے مسلک کی اس حد تک وکالت کرتے ہیں کہ کتاب و سنت کی بھی تاویلیں کر نے سے گریز نہیں کرتے۔

تقلید میں اعتدال

قرون اولی میں مسلمانوں کا یہ عمل رہا ہے کہ وہ مسالک کے تعصبات سے پاک تھے۔ جب انھیں کوئی بات معلوم نہیں ہوتی تھی تو وہ اہل علم سے رجوع کرتے تھے۔ جن مسائل کے بارے میں انھیں علم نہیں ہوتا تھا ، انھیں کسی مستند عالم دین سے پوچھ لیتے تھے ، یہ جانے بغیر کہ اس کا تعلق کس مسلک سے ہے۔لیکن بعد میںلوگ مسلک کے معاملے میں تعصب سے کام لینے لگے۔ خود کو اس بات کا مکلف بنا لیا جس کا اللہ تعالیٰ نے انھیں مکلف نہیں بنایا تھا۔ مسلک کی اتباع میں انھوں نے اس حد تک غلو کیا کہ اپنے اماموں اور فقیہوں کو رسول کا درجہ دے دیا اور کتاب و سنت کی اتباع کو بالائے طاق رکھ دیا اور اس تعصب کی وجہ سے وہ حق سے کوسوں دور ہوتے جا رہے ہیں۔


آدم اور نوح علیہم السلام کے درمیان دس زمانے تھے جو اسلام پر گزرے تھے۔ اصنام پرستی کا رواج اس طرح شروع ہوا کہ جب اولیاء اللہ فوت ہو گئے تو ان کی قوم نے ان کی قبروں پر مسجدیں بنا لیں اور ان میں ان بزرگوں کی تصویریں بنا لیں تاکہ ان کا حال اور ان کی عبادت کا نقشہ سامنے رہے اور اپنے آپ کو ان جیسا بنانے کی کوشش کریں لیکن کچھ زمانے کے بعد ان تصویروں کے مجسمے بنا لیے۔ کچھ اور زمانے کے بعد انہی بتوں کی پوجا کرنے لگے اور ان کے نام انہی اولیاء اللہ کے ناموں پر رکھ لیے۔ ود، سواع، یغوث، یعوق، نسر وغیرہ۔ 

جب بت پرستی کا رواج ہو گیا، اللہ نے اپنے رسول نوح علیہ السلام کو بھیجا۔ آپ نے انہیں اللہ واحد کی عبادت کی تلقین کی اور کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں قیامت کے دن تمہیں عذاب نہ ہو۔ 

قوم نوح کے بڑوں نے، ان کے سرداروں نے اور ان کے چودھریوں نے نوح علیہ السلام کو جواب دیا کہ تم تو بہک گئے ہو، ہمیں اپنے باپ دادوں کے دین سے ہٹا رہے ہو۔ ہر بد شخص نیک لوگوں کو گمراہ سمجھا کرتا ہے۔ قرآن میں ہے کہ جب یہ بدکار ان نیک کاروں کو دیکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ تو بہکے ہوئے ہیں۔ 

کہا کرتے تھے کہ اگر یہ دین اچھا ہوتا تو ان سے پہلے ہم نہ مان لیتے؟ یہ تو بات ہی غلط اور جھوٹ ہے۔
نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں بہکا ہوا نہیں ہوں بلکہ میں اللہ کا رسول ہوں، تمہیں پیغام رب پہنچا رہا ہوں۔ تمہارا خیرخواہ ہوں اور اللہ کی وہ باتیں جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے۔ 

ہر رسول مبلغ، فصیح، بلیغ، ناصح، خیرخواہ اور عالم باللہ ہوتا ہے۔ ان صفات میں اور کوئی ان کی ہمسری اور برابری نہیں کر سکتا۔ 

صحیح مسلم شریف میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفے کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا جبکہ وہ بہت بڑی تعداد میں بہت زیادہ تھے کہ اے لوگو! میری بابت اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے تو بتاؤ کیا جواب دو گے؟ سب نے کہا: ہم کہیں گے کہ آپ نے تبلیغ کر دی تھی اور حق رسالت ادا کر دیا تھا اور پوری خیر خواہی کی تھی۔ پس آپ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور پھر نیچے زمین کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا یااللہ! تو گواہ رہ، اے اللہ! تو شاہد رہ، یااللہ! تو گواہ رہ۔ } ۱؎  [صحیح مسلم:1218] ‏‏‏‏

No comments:

Post a Comment