Wednesday, December 24, 2025

جاسوسي کرنا، ٹوہ میں لگے رہنے کے سنگین نتائج

’’ تجسس(جاسوسي کرنا، ٹوہ میں لگنا) اور اس کے سنگین نتائج ‘‘


ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے، میں اللہ  سبحانہ وتعالی کا ایسا شکر کرتا ہوں جس کی وجہ سے  ہمیں  اللہ کی خوشنودی اور مغفرت کی امید ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ بہت ہی انعامات اور بھلائیاں دینے والی ذات ہے۔اور میں گوہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں جنہیں جن و انس کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا ۔ یا اللہ ! اپنے بندے اور رسول محمدﷺ پر اور ان کی آل پر اور صحابہ پر اور تابعین پر اور جو لوگ ان کی اچھے طریقے سے پیروی کریں ان پر بھی رحمتیں اور سلامتی نازل فرما۔

حمدو ثناء صرف الله وأحد لاشريك کے لئے ہے

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور یاد رکھو کہ تمہیں اللہ کے سامنے کھڑے ہونا ہے۔

يَوْمَ يَنظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا

النبأ – 40

جس دن انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی کو دیکھ لے گا اور کافر کہے گا کہ کاش! میں مٹی ہو جاتا ۔

اے مسلمانوں:

دور اور قریب والوں نے دین کے جو فضائل اور تعریفیں بیان کی ہیں ان میں یہ  بھی ہے: وہ  انمول قوانین  جن کے ذریعہ اس دین نے حق پر قائم رہنے والی جماعت کے لئے اصول بنائے ہیں، اور ان کے ذریعہ اس کی بنیاد مضبوط کی ہے، اور اس کی ایسی مضبوط چار دیواری  کے ذریعہ حفاظت کی ہے جو اسے گرانے والے اوزار سے بچاتی ہے۔

اور اس کی بنیاد ایسے عقیدے پر رکھی ہے جو دلوں میں یہ بات  بٹھا دیتا ہے کہ مومنوں کے درمیان تعلقات کی بنیاددین  کے لئے بھائی چارے  پر ہے؛ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ

الحجرات – 10

مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے :

«المُسلمُ أخُو المُسلِم .. »

أخرجه الشیخان فی “صحیحیهما” من حدیث عبد الله بن عمر – رضی الله عنهما -۔

مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ یہ حدیث صحیح بخاری  ومسلم میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے۔

یہ ایک ایسا تعلق ہے جو اسلامی اخوت میں  ایک ایسےشعور کو اُجاگر کرتا ہےجس کی وجہ سے انسان خیر خواہی کے طور پر  دوسرے کو اپنے آپ پر فوقیت دیتا ہے۔اور اپنے بھائی کے لئے اتنا ہی فائدہ سوچتا ہے جتنا اپنے لئے سوچتا ہے۔

صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے:

«لا يُؤمنُ أحدُكم حتى يُحبَّ لأخيه ما يُحبُّ لنفسِه»

أخرجه البخاری و مسلم – رحمهماالله – من حدیث أنس بن مالك – رضی الله عنه – ۔

تم  میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک وہ اپنے بھائی کےلئے بھی وہ ہی پسند کرےجو اپنے لئے پسند کرے۔ اس حدیث کے راوی انس بن مالک ہیں۔

فطرت اور عقل سلیم کا تقاضا:

اور جب عقلی طور پر یہ بات ثابت ہے اور فطرت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جن چیزوں سے اس کا تعلق ہوتا ہے اور جو  اس کے خاص معاملات،  کام کاج اور راز کی باتیں ہیں ان کی وہ حفاظت کرے۔ اور بچکانہ عادت والوں سے اور حقیر جاننے والوں کی حقارت سے دور رہے، اور وہ اپنے راز افشاں ہونے سے ڈرتا ہے  جن سے اسے بہت زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے، اور بڑی  پریشانی آسکتی ہے، اور اس کے  درست کام بھی  خراب ہوجاتے ہیں۔

شریعت کا مقصد:

اورمعزز شریعت  اس حق کی حفاظت کے لئے ہی آئی ہے، اور ہر اس راستے کو ختم کردیا ہے جو اس کو پامال کرنے کا ذریعہ بنتا ہے،اور اس کا واضح  ثبوت یہ ہے کہ  اللہ عز وجل نے مومنوں کوٹوہ  (سراغ) لگانے جیسی  بری عادت سے روکا ہے۔

راز کی پوشیدگی میں سلامتی:

اوراہل علم  اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایسی بری عادت والا انسان اللہ کے بندوں کو اللہ کے راز میں محفوظ نہیں رہنے دیتا، بلکہ وہ لوگوں کے  خاص  رازوں کو کُرَیدنے(جاننے) کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کے سامنےوہ معاملات ظاہر ہوجائیں جو اگر پوشیدہ ہوتے تواس کے دل اور دین کے لئے سلامتی کا باعث بنتے۔

شرعی احکامات:

اور(شریعت میں) مسلمان کے بارے میں بری سوچ رکھنے کی ممانعت آئی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ لوگوں کے راز ڈھونڈنے کی بھی سخت ممانعت آئی ہے؛ کیونکہ اس کےسنگین نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ اس ٹوہ لگانے والے کا دل صرف گمان پر ہی اکتفاء نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے گما ن کی تحقیق پر مجبور ہوجاتا ہےاور ٹوہ میں لگ جاتا ہے، اس طرح وہ دونوں گناہوں کا بوجھ ایک ساتھ ہی اپنے اوپر اٹھالیتا ہے۔اسی لئے ان دونوں (برائیوں ) کی ممانعت ایک ہی آیت میں اللہ رب العزت نے بیان فرمائی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ

الحجرات – 12

اے اہل ایمان ! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے (تو غیبت نہ کرو) اور اللہ کا ڈر رکھو بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

معروف مفسرِ قرآن امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں  فرمایا :

“أي: لا يتَّبِع بعضُكم عورةَ بعضٍ، ولا يبحَث عن سرائِرِه يبتغِي بذلك الظهورَ على عُيوبِه، ولكن اقنَعوا بما ظهرَ لكم من أمره”.

اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے عیب تلاش نہ کریں، اورنہ ہی  رازوں کو ڈھونڈیں جن کے ذریعہ عیب ظاہر ہوجائیں،بلکہ  لوگوں کے ظاہری  قول و عمل کا ہی اعتبار کریں۔

صحیح بخاری کی حدیث  ہے:

عن أبي هريرة – رضي الله عنه – أن رسولَ الله – صلى الله عليه وسلم – قال: «لا تجسَّسُوا، ولا تحسَّسُوا، ولا تباغَضُوا، ولا تدابَرُوا، وكونوا عبادَ الله إخوانًا».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: تجسس نہ کرو، اور  خبریں معلوم نہ کرو، اور ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، اور ایک دوسرے کی مخالفت نہ کرو، اور سب اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔

چُپکے چُپکے باتیں سننے کی سزا:

اللہ کے بندو! اور  ٹوہ لگانے میں یہ بات بھی آتی ہے کہ کسی کی اجازت اور رضا مندی  کے بغیر اسکی باتوں کو سننا ؛ اور نبی ﷺ نے ایسے شخص کے بارے میں سخت وعید سناتے ہوئے فرمایا:

«من تحلَّم بحلمٍ لم يرَه كُلِّفَ أن يعقِدَ بين شعيرتَيْن، ولن يفعَل، ومن استمعَ إلى حديثِ قومٍ وهم له كارِهون أو يفِرُّون منه صُبَّ في أُذنِه الآنُك – أي: الرَّصاص المُذاب – يوم القيامة ..»

أخرجه الشیخان فی “صحیحیهما” من حدیث ابن عباس – رضی اللہ عنھما – واللفظ للبخاری ۔

صحیح بخاری اور مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ جس شخص  نے  کوئی جھوٹا خواب  گھڑ لیا جو اس نے نہیں دیکھا تھا تو اسے یہ حکم دیا جائے گا کہ وہ دو جؤ کے دانوں کے درمیان گرہ لگائے تو اس کا عذاب کم ہوسکے گا جبکہ ایسا وہ ہرگز نہیں کرسکے گا۔ اور  جو شخص لوگوں  کی باتیں سنتا ہے حالانکہ وہ اسے نہیں چاہتے بلکہ اس سے وہ دور بھاگتے ہیں تو  قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔

اللہ تعالی نے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت مانگنے کا حکم دیا ہےتاکہ (داخل ہونے والا اچانک داخل ہوکر) راز کو نہ جان سکے بلکہ ان کے رازوں اور عیبوں کی حفاظت ہو سکے۔

بغیر اجازت گھر میں داخل ہونا منع ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

النور – 27

اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو (١) یہی تمہارے لئے سراسر بہتر ہے تاک تم نصیحت حاصل کرو ۔

گھر میں جھانکنے کی سزا:

اور اللہ کے رسول ﷺ نے اس اجازت کی حکمت اور مقصد کی وضاحت کی ہے اور جس شخص نے نبی ﷺ کے حجرے میں جھانکا تھا اور نبی علیہ السلام کے پاس ایک کنگھی تھی جس سے وہ اپنے سر پر کنگھی کررہے  تھے، تو انہوں نے فرمایا :

«لو أعلمُ أنك تنظُر لطعنتُ به في عينِك، إنما جُعِل الاستِئذانُ من أجل البصر»

أخرجه الشیخان فی “صحیحیهما” من حدیث سهل بن سعد – رضی الله عنه – ۔

اگر مجھے پتہ ہوتا کہ آپ دیکھ رہے ہیں تو میں اس کنگھی کو آپ کی آنکھ میں ماردیتا۔ اجازت کا حکم(رازوں کو نہ)  دیکھنے کی وجہ سے ہی دیا گیا ہے۔یہ حدیث صحیح بخاری و مسلم میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

تکمیلِ ایمان کی علامت:

اللہ کے بندو!

اگر بندے کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے (مسلمان)  بھائی کے لئے وہ کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔اور جب تک وہ اس کے لئے وہ چیز ناپسند نہ کرے جسے اپنے لئے ناپسند کرتا ہے؛ اور اس کا سب سے کم  درجہ یہ ہے کہ اپنے بھائی کے ساتھ وہ معاملہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے، اور یقینا وہ اپنے بھائی سے یہی امید رکھتا ہے کہ وہ اس کے  عیبوں کو  ظاہر کرنے کی بجائے چھپالے اور اس کی لغزش سے گریز کرے۔

تجسس کے نقصانات:

۱ـ ہر طرف فساد ہی فساد:

اور اگر اس کے برعکس  اس نے کچھ کیا ؛ یعنی اس نے  یہ کام (عیبوں کی حفاظت) نہیں کئے تواس کو مطلب یہ ہوگا کہ  وہ  اپنے بھائی کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا اور  نہ ہی وہ اس کا خیر خواہ ہے۔ اور اسی وجہ سے اخوت کے راستوں میں ایسا بڑا فساد برپاہوجاتا ہے جو لوگوں کے  سلجھے ہوئے معاملات کو بھی الجھا دیتا ہے، اور ان کے ظاہری سیدھے کاموں کو ٹیڑھا کردیتا ہے، اور  اسی وجہ سے  وہ حیا کے بدلے بے حیائی کے کاموں میں پڑ جاتا ہے۔

اسی لئے نبی علیہ السلام نے معاویہ رضی اللہ عنہ  سے فرمایا کہ:

«إنك إن اتَّبَعتَ عورات الناس أفسدتَّهم، أو كِدتَ أن تُفسِدَهم»

أخرجه أبو داؤد فی “سننه” باسناد صحیح۔

 اگر آپ لوگوں کے عیب تلاش کرنے لگ جائیں تو  آپ فساد کا ذریعہ بن جائیں گے یا فساد کے قریب پہنچ جائیں گے۔یہ حدیث صحیح سند سے ثابت ہے۔

۲ـ خود بھی رسوا(برائی کا انجام برا):

جیسا کہ نبی علیہ السلام نے بتایا کہ عیب جوئی کرنے والوں کی سزا بھی یہی ہے کہ وہ اپنے گھر کے کونے میں ہی رسوا ہوجاتا ہے،اور لوگوں میں  اس کے عیب اور راز  پھیل جاتے ہیں تاکہ اسے اپنے گناہ کی سزا مل جائے اور اسی گلاس سے وہ خود پانی پیئے۔اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

«يا معشرَ من آمنَ بلسانِه ولم يخلُص الإيمانُ إلى قلبِه! لا تتَّبِعوا عورات المُسلمين؛ فإنه من تتبَّعَ عورةَ امرئٍ تتبَّعَ الله عورتَه، حتى يفضحَه ولو في جوفِ رحْلِه»

أخرجه الترمذی فی “جامعه” باسناد حسن من حدیث عبد الله بن عمر – رضی الله عنهما – ۔

اے  وہ جماعت جنہوں نے اپنی زبان سے ایمان کا اظہار کرلیا لیکن ان کے دل میں ایمان پختہ نہیں ہوا؛   (سنو! ) جو شخص بھی کسی کے راز ڈھونڈتا ہے اللہ اس کے راز فاش کردیتا ہے یہاں تک کہ اسے رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگرچہ وہ اپنے  ہی گھر کےاندر ہو؛امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ حدیث جامع ترمذی میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے ۔

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو، اور رازوں کے پیچھے لگنے سے بچو۔یہ ایک ایسا نمونہ ہے جو حرمتوں کو پامال کرنے کی فریاد رسی کرتا ہے۔اللہ کی رضا کی خاطر بھائی چارے کے حقوق کوبدل دیتا ہے۔ اور یہ  مذمت، نقصان اور ذلت  کا راستہ ہے جس سے نیک ، متقی و پاکیزہ لوگ دور رہتے ہیں۔

میں یہ بات کہہ رہا ہوں ، اور  عظمت و جلال والے اللہ سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے مغفرت مانگتا ہوں، بیشک وہ بہت بخشنے والا ہے۔

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہےجو بہت کریم اور  نہایت رحم کرنے والا ہے۔میں اللہ سبحانہ وتعالی کے مکمل فضل اور تمام بھلائیوں پر اسی کی تعریف کرتا ہوں۔ اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ  اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں۔وہ سلامتی والے گھر ( جنت) کی طرف  دعوت دیتا ہےاور جسے چاہتا ہے اسے سیدھا راستہ دکھادیتا ہے۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی  محمدﷺ اللہ کے بندے اور اسی کے رسول ہیں جن کا منھج سب سے بہترین  اور اخلاق  سب سے عظیم ہے۔

یا اللہ ! رحمتیں اور درور نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمدﷺ پر، اور انکی آل پر اور انکے صحابہ پر، اور  ان لوگوں پر جو قیامت تک انکی اطاعت کریں گے ۔

حمد و ثناء کے بعد،

ایک تجسس بہت ساری برائیوں کا سبب:

اے اللہ کے بندو!

عیب تلاش کرنے کی مذمت میں جو وعید آئی ہے  اس سے اپنے آپ بری ہوجاناجائز نہیں  کہ ہر وہ  شخص اس وعید سے خود ہی بری ہوجائے جو ایسے قبیح   اخلاق اور رذیل خصلتوں کو اپنی عادت  ،  چاہت  اور غرض و غایت بنالیتاہے، جس کی خاطر ہرراستے کو اپناتا ہے، اور ہر وسیلہ استعمال کرتا ہے، اور ہر جگہ پہنچ جاتا ہے،اور جہاں تک ممکن ہوسکے خبروں کے جدید ذرائع ابلاغ کی (من گھڑت) باتوں کو بڑی خوشی سےسن کر پھیلاتا ہے۔

یہ وہ مواقع ہیں جن کے ذریعہ بہت سے افراد باہمی اختلافات اور قطع  تعلقی کا شکار ہوگئے کیونکہ وہ رازوں کا پردہ فاش کرتے ہیں اور  شخصیات کو مجروح کرتے ہیں۔اور  انہوں نے یہی مقصد حیات بنا لیا ہے کہ رازوں کو تلاش کرنا،  عیبوں اور غلطیوں  کو پھیلا نا، محض خواہشات کی پیروی، برے گمان اور وہم کی بناء پر جھوٹی خبریں شائع کرنا جن کا نہ سر ہو  اور نہ پیر۔اور یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ بات کس نے کہی ہے؟ اور اس سے بھی کوئی سوکار نہیں کہ یہ بات سچ  ہے یا جھوٹ۔

حالات کی نزاکت:

اور اگر اس کے ساتھ ساتھ  (مذاقیہ یا طنزیہ) جملے ، مناظر اور تصویریں  بھی شامل ہوں  جن سے مومنوں کو تکلیف ہوتی ہو اور مذاق اڑانے والوں کو خوشی ہوتی ہو تو اسکا نقصان (گناہ) بھی زیادہ ہوگا اور اس کی آزمائش بھی زیادہ سخت ہوگی۔اور اس وقت اس بات کی ضرورت ہوگی کہ اس پریشانی  کو دور کرنے کے لئے کوئی حل تلاش کیا جائے اور اس مصیبت کو اچھے انداز اور بہتر طریقے سے ختم کیا جائے کیونکہ اس کے نتائج بہت خطرناک ہیں حالیہ ہوں یا مستقبل میں۔

مزید نصیحتیں :

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو:  جیسا کہ تمہارے رب نے حکم دیا ہے کہ:  نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو ، اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔

اور یہ مواقع تو لوگوں کو ملانے کا سبب ہونے چاہئیں،اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی نصیحت کرنے کا وسیلہ (ذریعہ) ہونے چاہئیں، نہ کہ باہمی اختلافات ، قطع تعلقی ، حرمتوں کو پامال کرنے اور رازوں کو افشاں کرنے کا ذریعہ، بلکہ ان باتوں سے  زمین اور  آسمانوں کا رب ناراض ہوتا ہے۔

نبی ﷺ پر درود و سلام:

اور اللہ کے رسولﷺ پر درود و سلام بھیجو؛ اللہ کی کتاب میں  اس کا  تمہیں حکم دیا گیا ہے؛ جیسا کہ ہمارے  انتہائی پاکیزہ  رب نے فرمایا:

إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو ۔

خلفائے راشدین کے لئے دعا:

یا اللہ! اپنے بندے اور رسول  محمد ﷺ پر رحمتیں اور سلامتی نازل فرما، اور چاروں خلفاء ابو بکر و عمر و عثمان و علی  سے راضی ہوجا۔اور آل و اصحاب اور تابعین سے بھی راضی ہوجا، اور ان سے بھی راضی ہوجا جوقیامت تک ان کی پیروی کریں گے، اور ان کے ساتھ ساتھ اپنی مہربانی، کرم اور بھلائی کے ذریعہ ہم سے بھی  راضی ہوجا۔اے سب سے زیادہ کرم کرنے والے۔

تمام مسلمانوں کے لئے دعائیں:

اے اللہ! اے تمام جہانوں کے رب!  اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔ یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔ یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔  دین کے احکامات کی حفاظت فرما۔  دین کے دشمنوں  اور تمام سرکش و فساد کرنے والوں کو نیست و نابود کردے۔  مسلمانوں کے دلوں میں الفت پیدا فرما۔ انکی صفوں کو ایک کردے۔ انکے قائدین کی اصلاح فرمادے۔ اور انہیں  حق بات پر متفق فرمادے۔

یا اللہ! اپنے دین اورکتاب  کی حفاظت  فرما اور اپنے نبی محمد ﷺ کی سنت کی حفاظت فرما۔ اور اپنے سچے مومن مجاہدین بندوں کی مدد فرما۔

یا اللہ ! ہمارے وطنوں میں ہماری حفاظت فرما، اور ہمارے ائمہ اور امیر المومنین کی اصلاح فرما اور حق کے ذریعہ ان کی مدد فرما۔انہیں نیک رفقاء کی صحبت عطا فرما۔ اے دعا کو بخوبی سننے والے! انہیں ہر اس قول و عمل کی توفیق دے جس سے تو خوش اور راضی ہوتا ہے۔

یا اللہ! ہمارے امیر اور اس کے وزیر اور اس کے بھائیوں (عہدے داران) کو ان کاموں کی توفیق دے جن میں اسلام اور مسلمانوں کے  لئے خیر ہو، اور جن (کاموں ) میں تمام لوگوں اور شہروں کی بھلائی ہو۔ اے وہ ذات  جس کی طرف آخرت کے دن لوٹ کو جانا ہے۔

یا اللہ!  ہمارے تمام معاملات کا انجام بہتر فرما، اور دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا۔

یا اللہ! ہمارے دین کی اصلاح فرما جو ہمارے معاملات میں  عصمت (گناہوں سے بچنے) کا باعث ہے۔اور ہماری دنیا کو بھی سنوار دے جو ہمارے لئے ذریعہء معاش ہے۔اور ہماری آخرت بھی بہتر فرما جس میں ہمارا انجام ہے۔ اور موت کو ہر برائی سے راحت کا ذریعہ بنادے۔

یا اللہ ! ہم تیری نعمتوں کے ختم ہونے سے تیری پناہ مانگتے ہیں، اور تیری عافیت کے پلٹ جانے سے، اور اچانک تیری سزا سے، اور تیرے غصہ سے۔

یا اللہ ! ہم تجھ سے  بھلائی کے کام کرنے ،  برائیوں کو چھوڑنے  اور  مسکینوں  سے محبت کرنے کی توفیق مانگتے ہیں۔اور بخشش اور رحمت کی دعا کرتے ہیں۔اور اگر  کسی قوم کو عذاب دینے کا ارادہ ہو تو ہمیں  آزمائش میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی اپنے پاس بلالینا ۔

دشمنانِ اسلام پر بددعائیں:

یا اللہ! جس طرح تو چاہے ہمارے لئے  اپنے اور ہمارے دشمنوں کے مقابلے میں کافی ہوجا۔ یا اللہ! یا رب العالمین!   جس طرح تو چاہے ہمارے لئے  اپنے اور ہمارے دشمنوں کے مقابلے میں کافی ہوجا۔ یا  اللہ! ہم تجھے ہی ان کے مقابلے میں کرتے ہیں  اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔ یا  اللہ! ہم تجھے ہی ان کے مقابلے میں کرتے ہیں  اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔ یا  اللہ! ہم تجھے ہی تیرے  اور اپنے(ہمارے) دشمنوں  کے مقابلے میں کرتے ہیں  اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔

مجاہدین  اور مظلومین کے لئے دعائیں:

یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! مسلمانوں کے گھروں اور وطنوں میں انکی  حفاظت فرما۔یا اللہ! سوریا میں انکی حفاظت فرما، فلسطین میں ان کی حفاظت فرما، برما میں انکی حفاظت فرما، اور تمام مسلمانوں کی ان کے گھروں اور قبیلوں میں حفاظت فرما۔

یاللہ! اے تمام جہانوں کے رب! اپنے اور ان  (مسلمانوں) کے دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد فرما، یا اللہ ! انکی مدد فرما۔ یا اللہ! ان کی ٹوٹی ہوئی  ہڈیوں کو جوڑ دے، کمزور لوگوں پر رحم فرما، زخمیوں کو شفا عطا فرما، انکے مقتولین کو شھادت کا درجہ عطا فرما۔

یا اللہ! مصر کے مسلمانوں کی حفاظت فرما۔ یا اللہ! مصر کے مسلمانوں کی حفاظت فرما۔ ان کی عوام کی حفاظت فرما۔ انہیں فتنہ سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہمیں اور انہیں ظاہری و پوشیدہ فتنوں کے شر سے بچا۔ یا اللہ! ہمیں اور انہیں ظاہری و پوشیدہ فتنوں کے شر سے بچا۔

یا اللہ! یا رب العالمین!  انکی صفوں کو ایک کردے، انکے  اور تمام مسلمانوں کے قائدین کی اصلاح فرما۔

عمومی دعائیں:

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

الاعراف – 23

دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ

آل عمران – 8

اے ہمارے رب!  ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، یقیناً تو ہی بڑی عطا دینے والا ہے۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

البقرة – 201

اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی دے  اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور عذاب جہنم سے نجات دے۔

اور اللہ  اپنے بندے اور رسول ہمارے نبی محمدﷺ اور انکی آل اور تمام صحابہ پر رحمتیں اور سلامتی  بھیجے، اور ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

***


Wednesday, December 10, 2025

نماز کے ممنوعہ اوقات

صلى الله عليه وسلم  
 

الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيدالأنبياء والمرسلين، أما بعد ! 

! الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيدالأنبياء والمرسلين، أما بعد

نماز کےلیے ممنوعہ اوقات

 

سیدنا عبد اللہ بن عمر﷜ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «لَا صَلَاةَ بَعْدَ الفَجْرِ إِلَّا سَجْدَتَيْنِ» ([1])

’’فجر کے بعد دو رکعتوں کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں۔‘‘

مصنف عبد الرزاق میں یہ الفاظ ہیں: «لَا صَلَاةَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ» ([2])

’’فجر کے طلوع ہونے کے بعد فجر کی دو سنتوں کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں۔‘‘

یعنی فرضوں کے علاوہ۔ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب فجر کی اذان ہوجائے تو  فجر کی فرض نماز ہے اور اس کے علاوہ فجر کی دو سنتیں ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں۔

سیدنا ابو سعید خدری ﷜ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: «لَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلاَ صَلاَةَ بَعْدَ العَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ» ([3])

’’فجر کی نماز کے بعد کوئی نماز نہیں، حتیٰ کہ سورج طلوع ہوجائے۔اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں، حتیٰ کہ سورج غائب ہوجائے۔‘‘

مطلب یہ ہے کہ فجر سے لے کر سورج طلوع ہونے تک کوئی نفلی نماز نہیں۔اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں کا مطلب یہ ہے کہ جب سورج زرد ہوجائے، عصر کا مختار وقت ختم ہوجائے ، اس کے بعد سورج غروب ہونے تک کوئی نفلی نماز نہیں ۔فرض کسی کے رہتے ہوں تو وہ پڑھ سکتا ہے۔

سیدنا عقبہ بن عامر﷜ فرماتے ہیں : « ثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ، أَوْ أَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا: حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ، وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ الشَّمْسُ، وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ»

’’تین اوقات کے بارے میں نبی کریمﷺ ہمیں منع کرتے تھے کہ ان اوقات میں ہم نماز پڑھیں یا اپنے مُردوں کو دفن کریں۔ جب سورج طلوع ہوتا ہے، اس وقت سے لے کر جب تک سورج بلند نہ ہوجائے۔ اسی طرح جب سورج بالکل سر پر آجاتا ہے ، حتیٰ کہ وہ زائل ہوجائے۔ اور جب سورج غروب ہونے کےلیے جھک جائے، حتیٰ کہ غروب ہوجائے۔‘‘

سورج مکمل طلوع ہونے کے بعد بلند ہونے میں تقریباً بارہ منٹ لگاتا ہے۔ اور سورج مکمل طلوع ہونے میں تقریباً اڑھائی منٹ لگاتا ہے۔ یعنی نماز کے اوقات والے کیلنڈر میں طلوع ِ آفتاب کا جو وقت لکھا ہوتا ہے، اس میں تقریباً پندرہ منٹ کا اضافہ کرلیں۔ اس وقت میں نہ نماز پڑھنا درست ہے اور نہ ہی مُردوں کو دفنانا جائز ہے۔ سورج سر پر آنے کے بعد تقریباً دو منٹ اور پینتیس سیکنڈ میں اپنی جگہ چھوڑ دیتا ہے۔ یعنی تقریباً اڑھائی منٹ۔ تو یہ بالکل تھوڑا سا وقت ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ فجر کی اذان سے لے کر سورج طلوع ہونے تک فجر کی سنتوں کے علاوہ کوئی بھی نفلی نماز جائز نہیں ہے۔ اس دوران اگر کوئی مسجد میں آئے تو تحیۃ المسجد پڑھے گا کیونکہ تحیۃ المسجد فرض ہے۔ پھر سورج طلوع ہونے سے لے کر اس کے ایک نیزہ کے برابر بلند ہونے تک یعنی تقریباً پندرہ منٹ تک کوئی نفلی نماز بھی نہیں پڑھی جائے گی اور نہ ہی مُردوں کو دفنایا جائے گا۔ پھر سورج جب سر پر آجائے تو جب تک زائل نہ ہو، اس وقت میں بھی نفلی نماز پڑھنا اور مُردوں کو دفنانا منع ہے۔ پھر عصر کے بعد جب سورج زرد ہوجائے اور ایسا غروبِ آفتاب سے تقریباً آدھا گھنٹہ پہلے ہوتا ہے، تو سورج کے زرد ہونے سے لے کر سورج غروب ہونے تک کوئی نفلی نماز نہیں پڑھنی۔ کسی کے فرض رہ جائیں تو وہ قضاء دے سکتا ہے۔ پھر جب سورج غروب ہونے لگے تو اس وقت سے لے کر اس کے مکمل طور پر غائب ہوجانے تک نماز کے ساتھ ساتھ مُردوں کو دفنانا بھی منع ہوجاتا ہے۔ ان اوقات میں نماز پڑھنا اور مُردوں کو دفن کرنا منع ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص حج یا عمرہ کرنے کےلیے گیا ہے یا ویسے ہی مکہ میں موجود ہے اور وہ مسجدِ حرام میں پہنچ جاتا ہے تو کعبہ والی مسجد یعنی مسجدِ حرام میں ان اوقات میں بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ جن اوقات میں باقی جگہوں پر نماز پڑھنا منع ہے، مسجدِ حرام میں ان اوقات میں نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ جبیر بن مطعم﷜ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: «يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، لَا تَمْنَعُوا أَحَدًا طَافَ بِهَذَا البَيْتِ، وَصَلَّى أَيَّةَ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ» ([4])

’’اے بنی عبد مناف! کوئی بھی شخص بیت اللہ کا کسی بھی وقت طواف کرے دن ہو یا رات اور یہاں کسی وقت بھی وہ نماز پڑھے ، دن کی کسی گھڑی میں یا رات کی کسی گھڑی میں ، اسے منع نہ کرو۔‘‘

اس حدیث میں بنو عبد مناف کو اس لیے خطاب کیا گیا ہے کہ کعبہ کی نگہبانی اس وقت ان کے ذمہ تھی۔ معلوم ہوا کہ مسجدِ حرام میں بیت اللہ کا طواف ممنوعہ اوقات میں بھی کیا جاسکتا ہے اور نماز بھی ان ممنوعہ اوقات میں پڑھی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ کو استثناء بخشا ہے۔

______________________

([1])           أبو داود (1278)، والترمذي (419)

([2])           مصنف عبد الرزاق (4760)

([3])           البخاري (586)، ومسلم (827)

([4])           أبو داود (1894)، والترمذي (868)


Wednesday, November 12, 2025

نماز استسقاء

 
عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيِّ اليوم خرج يَسْتَسْقِي قَالَ: فَحَوَّلَ إِلَى النَّاسِ ظَهْرَهُ وَاسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ يَدْعُوْ، ثُمَّ وَحَوَّلَ رِدَاءَهُ ثُمَّ صَلَّى لَنَا رَكْعَتَينِ، جَهَرَ فِيهِمَا بِالْقِرَاءَةِ. (متفق عليه).
(صحیح بخاری: کتاب الاستسقاء، باب كيف حول النبي الله ظهره إلى الناس، صحيح مسلم: كتاب صلاة الاستقاء باب باب)
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ایک دن دیکھا کہ استسقاء کے لئے باہر نکلے تو قبلہ رو ہو کر دعا کی ۔ پھر اپنی چادر پیٹی اور دو رکعت ہمیں نماز پڑھائی ۔ نماز میں آپ ﷺ نے قراءت قرآن بلند آواز سے کی۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: شَكَا النَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ فحُوطَ المَطَرِ، فَأَمَرَ بِمنْبَرٍ فَوُضِعَ لَهُ فِي المُصَلَّى وَوَعَدَ النَّاسَ يَومًا يَخْرُجُونَ فِيهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ اللهُ حِيْنَ بَدَأَ حَاجِبُ الشمس، فَقَعَدَ عَلَى المِنبَرِ فَكَبَّرَ لَهُ ووَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وجَلَّ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّكُم شكوتُمْ جَذَبَ دِيَارِكُمْ وَاسْتِنْخَارَ المَطرِ عَن إِيَّانَ زَمَانِهِ عَنْكُمْ، وَقَدْ أَمْرَكُمُ الله عز وجل أن تَدْعُوهُ وَوَعَدَكُم أن يستجيب لَكُمْ، ثُمَّ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يُريد، اَللّٰهُمَّ أَنْتَ اللهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، أنتَ الغَنِيُّ وَنَحْنُ الفُقَرَاءُ، انْزِلْ عَلَيْنَا الغيث واجْعَلْ مَا أَنزَلْتَ لَنا قُوَّةً وَبَلاعًا إلى حِينَ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَلَمْ يَزَلْ فِي الرفع حَتَّى بَدَا بَيَاضُ إِبْطَيهِ، ثُمَّ حَوَّلَ إِلَى النَّاسِ ظَهْرَهُ، وَقَلْبَ أَوْ حَوَّلَ رِدَاءَهُ وَهُوَ رَافِعٍ يَدَيْهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ وَنَزَلَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَأَنْشَأَ اللَّهُ سحابة فَرَعَدَتْ وبَرَقَتْ ثُمَّ أَمْطَرَتْ بِإِذْنِ اللَّهِ، فَلَمْ يَأْتِ مَسْجِدَهُ حَتَّى سالت السيول، فَلَمَّا رَأَى سُرْعَتَهُمُ إِلَى الكُنَّ ضَحِكَ ﷺ حَتَّى بَدَتُ نواجدهُ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ.
(أخرجه ابو داود).
(سنن أبو داود: كتاب صلاة الاستسقاء، باب رفع اليدين في الاستسقاء وحسنه الألباني في صحيح سنن أبي داود: (1173)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ صحابہ کرام نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں بارش نہ ہونے کی شکایت کی ۔ آپ ﷺ کے حکم سے آپ کے منبر کو نماز گاہ میں لے جایا گیا اور آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے اس کے لئے دن متعین کیا کہ اس میں نماز استسقاء کے لئے باہر نکلیں گے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں چنانچہ رسول اللہ ﷺ باہر نکلے تو اس وقت سورج کا ایک کنارہ نظر آرہا تھا آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ آپ ﷺ نے ’’اللہ اکبر الحمدُ لِلَّهِ حَمَدًا كَثِيرًا طيبًا‘‘ کے کلمات فرمائے پھر آپ نے فرمایا: تم نے اپنے علاقے کے بارے میں قحط سالی کا شکوہ کیا کہ بارش اپنے وقت سے پیچھے ہوگئی ہے جب کہ اللہ تعالی نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم اس سے دعا کرو اس نے تم سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ تمہاری دعاؤں کو قبول کرے گا۔ بعد ازاں آپ نے فرمایا، ’’ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يُريد، اَللّٰهُمَّ أَنْتَ اللهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، أنتَ الغَنِيُّ وَنَحْنُ الفُقَرَاءُ، انْزِلْ عَلَيْنَا الغيث واجْعَلْ مَا أَنزَلْتَ لَنا قُوَّةً وَبَلاغًا إلى حِينَ، (ہر طرح کی حمد وثنا اللہ تعالی کے لئے ہے جو جہاں والوں کا پروردگار ہے ، رحم کرنے والا مہربان ہے ، جزا و سزا کے دن کا مالک ہے، صرف اللہ تعالی ہی معبود برحق ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اے اللہ اتو معبود برحق ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو بے پروا ہے اور ہم محتاج ہیں ہم پر بارش نازل کر اور نازل کردہ بارش کو ہمارے لئے باعث قوت اور کچھ وقت تک کے لئے (ضرورتوں کو پورا کرنے کا) ذریعہ بنا۔ بعد ازاں آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا یا اتنا اٹھایا کہ آپ کے دونوں بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔ پھر آپ ﷺ نے اپنی پیٹھے حاضرین کی جانب کی اور ہاتھ اٹھاتے ہوئے اپنی چادر کو تبدیل کیا۔ پھر لوگوں کی جانب چہرہ کیا اور منبر سے اتر کر آپ نے دو رکعت نماز استسقاء ادا کی۔ پس اللہ تعالی نے بادل نمودار فرمایا وہ گرجا اور چمکا پھر اللہ تعالی کے حکم سے بارش ہوئی ابھی آپ مسجد میں نہیں پہنچ پائے تھے کہ وادیاں بہنے لگیں جب آپ ﷺ نے دیکھا کہ لوگ نہایت تیزی کے ساتھ پناہ گاہوں کی جانب لپک رہے ہیں تو آپ مسکرا دیئے یہاں تک کہ آپ کے داڑھ کے دانت نظر آ گئے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’أشهد أن الله عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ‘‘ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں)۔
وَعَن ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولُ اللَّهِ خَرَجَ مُتَبَدِّلاً مُتَوَاضِعًا مُتَضَرِّعًا (أخرجه الترمذي).
(سنن ترمذي: أبواب السفر، باب ما جاء في صلاة الاستسقائ، وقال حسن صحيح وحسنه الألباني في صحيح سنن ابن ماجة (1266)
ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی نے بڑی تواضع کے ساتھ ، سادہ لباسی اور نہایت عاجزی و انکساری کرتے ہوئے نماز کے لئے باہر نکلے۔
تشریح:
جب قحط سالی ہو اور بارش روک دی گئی ہو تو اس صورت میں آپ ﷺ سے ثابت ہے کہ مسلمان عاجزی، نہایت خشوع و خضوع اور پھٹے پرانے کپڑوں میں نماز استقاء کے لئے اپنے گھروں سے باہر نکلیں وہاں پر امام دو رکعت نماز پڑھائے اور خطبہ دے اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کرے اور بارش کے لئے دعا کرے۔ لیکن اگر کھلے میدان میں نماز پڑھنے کا انتظام نہ ہو جیسا کہ شہروں میں کھلی جگہ نہیں ہوتی ہے تو ایسی صورت میں مسجدوں میں استقاء کی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔
فوائد:
٭ نماز استعفاء دو رکعت پڑھنا اور نماز کے بعد چادر کا پالنا مستحب ہے۔
٭ نماز سے قبل یا بعد میں خطبہ دینا جائز ہے۔
٭ نماز استقاء کے لئے نہایت خشوع اور عاجزی وانکساری کے ساتھ نکلنا مستحب ہے۔

Thursday, April 3, 2025

جو لوگ بعض پر ایمان لا کر اور بعض سے انکار کر کے ایک تیسری راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں

تفسیر القرآن الکریم

 
  

سورة النساء
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا[150]
بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان کوئی راستہ اختیار کریں۔[150]
تفسیر القرآن الکریم 
(آیت 150) ➊ اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ: منافقین کے قبیح اعمال و اقوال بیان کرنے کے بعد اب یہاں سے اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے خیالات و شبہات اور ان کی تردید کا بیان شروع ہو رہا ہے اور یہ سلسلہ سورت کے آخر تک چلا گیا ہے۔ (رازی) اﷲ تعالیٰ کو ماننا اور رسالت و نبوت کو نہ ماننا کفر ہے۔ (قرطبی) اس لیے کہ اﷲ کا ماننا یہی ہے کہ زمانے کے پیغمبرکا حکم مانے، اس کے بغیر اﷲ کا ماننا غلط ہے۔ (موضح) نیز اﷲ کے احکام ماننے سے انکار اس کا بندہ ہونے سے انکار ہے اور بندگی (عبادت) سے انکار کا مطلب کائنات کو بنانے والے کا انکار ہے۔ 

➋ وَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ ……: مراد اہل کتاب ہی ہیں اور بعد والے جملے انھی کی خصلتوں کی تفسیر ہیں۔ (قرطبی، رازی) یہود موسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتے لیکن عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے تھے اور نصاریٰ موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کو مانتے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے۔ (ابن کثیر) 

➌ وَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا: یعنی سب کو ماننا ایمان ہے، کسی ایک کا انکار کفر ہے، جب کہ یہ لوگ بعض پر ایمان لا کر اور بعض سے انکار کر کے ایک تیسری راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں اور اس کا نام یہودیت یا نصرانیت رکھتے ہیں، جیسا کہ ہمارے زمانے کے مادہ پرستوں نے مسجدوں میں نماز، بازاروں میں سود، غم و شادی اور عام رہن سہن میں غیر مسلموں کی نقالی اور عدالتوں اور حکومت کے شعبوں میں کفریہ قوانین، سب کچھ کو ملا کر اس کا نام اسلام رکھ دیا ہے اور بعض نے کہا کہ قرآن کو تو مانیں گے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو نہیں مانیں گے۔ یہ منکرینِ حدیث بھی انھی لوگوں میں شامل ہیں۔